بدخشان، چترال روڈ مکمل: افغانستان، پاکستان کے درمیان تجارت کا مختصر راستہ

افغان طالبان کے مطابق بدخشان سے پاکستان کی چترال وادی کے شاہ سلیم زیرو پوائنٹ تک سڑک کی تعمیر مکمل کر دی گئی ہے جو پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارتی ترسیل کے لیے مختصر ترین راستہ ہے۔

افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پریان پنجشیر سے چترال کے شاہ سلیم زیرو پوائنٹ تک 194 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر افغان وزارت دفاع کی جانب سے مکمل کی گئی ہے۔

اعلامیے کے مطابق ’سڑک کی تعمیر سے بدخشان کے علاقے زیباک ضلع کے توپ خانے علاقے کو چترال کے شاہ سلیم زیرو پوائنٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔‘

افغانستان حکومت کے مطابق یہ راستہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارتی ترسیل کے لیے مختصر ترین راستہ ہے جس سے افغانستان کے شمال مشرقی، مشرقی اور وسطی صوبے ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے۔

افغان طالبان کی جانب سے جاری اس اعلامیے میں شاہ سلیم کا جو ذکر کیا گیا ہے، یہ دراصل دوراہ پاس کے پاکستانی طرف چترال میں سرحد کے قریب آخری گاؤں ہے جو افغانستان اور پاکستان کی سرحد کا زیرو پوائنٹ ہے۔

دوراہ پاس جو کبھی اہم تجارتی گزرگاہ تھی

دوراہ پاس خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال کے علاقے لوٹکوہ وادی (جہاں گرم چشمہ واقع ہے) میں واقع افغانستان کے صوبہ بدخشان اور پاکستان کو ملانے والی گزرگاہ ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 15 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

دوراہ پاس جاتے ہوئے چترال کے مشہور سیاحتی مقام گرم چشمہ روڈ پر جانا پڑتا ہے جہاں راستے میں مختلف سیاحتی وادیاں بھی موجود ہیں جہاں سیاح ٹریک کر کے جا سکتے ہیں۔

برٹش ملٹری کے 1901 کے گزٹیئر کے مطابق یہ گزرگاہ مئی اور دسمبر کے مہینوں میں پیدل افراد کے لیے کھلی رہتی ہے جبکہ جون سے نومبر تک سامان سے لدے جانوروں کے لیے قابل رسائی ہوتی ہے۔

انگریز دور میں برٹش گزٹیئر کے مطابق دوراہ پاس انڈیا، چترال اور افغانستان کے مابین ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہوا کرتی تھی جبکہ اس کے ساتھ بروغیل اور واخان بھی اس زمانے میں تجات کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔

اس زمانے میں اہم تجارتی گزرگاہ سمیت یہ پاس سٹریٹیجک اعتبار سے بھی ایک اہم راستہ سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے انگریزوں نے اس گزرگاہ پر ایک پورا دستہ تعینات کرنے کا بتایا تھا۔

برٹش گزٹیئر کے مطابق اسی راستے سے بدخشان صوبے سے نواب دیر عمرا خان کے چچا شیر افضل خان نے افغان قبائل کی مدد سے چترال پر چڑھائی کی کوشش بھی کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

اسی طرح انگریزوں کے خلاف افغان جنگ میں کرنل عبدالعزیز کی سربراہی میں 100 گھڑ سوار اور 800 انفینٹری کے ساتھ دوراہ پاس کے قریب بدخشان کے توپ خانے علاقے تک آئے تھے، لیکن بعد میں پسپائی اختیار کی تھی۔

اسی راستے سے سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران بدخشان کے علاقوں سے افغان پناہ گزین بھی سرحد کراس کر کے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور پاکستان میں قیام کرتے تھے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جرمنی کے برل نامی جریدے میں چترال کے حوالے سے شائع تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ 10ویں سے 16ویں صدی تک گلگلت کے غذر اور یاسین وادی سے غلاموں کو بدخشان سپلائی کیا جاتا تھا اور یہ ایک کمائی کا اہم ذریعہ تھا۔

دوراہ پاس روڈ کی صورت حال

دوراہ پاس جو چترال سٹی سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، کو گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کے لیے کھولنے کی خبریں میڈیا کی زینت تو بنتی رہی ہیں لیکن ابھی تک اس کو تجارت کے لیے بحال نہیں کیا گیا۔

چترال ٹاؤن سے دوراہ پاس تک سڑک خستہ حالی کا شکار ہے اور 2020 میں اس روڈ کی ذمہ دادی نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے لی تھی لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔

اسی حوالے سے چترال سے رکن قومی صوبائی اسمبلی فاتح الملک ناصر نے جنوری 2025 میں ایک قرارداد بھی اسمبلی میں پیش کی تھی کہ چترال کے دو اہم سڑکیں ارندو اور گرم چشمہ روڈ کی تعمیر مکمل کی جائے۔

قرارداد پاس ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ سے محکمہ کمیونی کیشن اینڈ ورکس ڈپارمنٹ کو ایک مراسلہ بھی ارسال کیا گیا تھا کہ اس سڑک کی تعمیر پر کام تیز کیا جائے۔

مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ چترال کا افغانستان کے تین صوبوں کنڑ، نورستانب اور بدخشان سے سرحدیں ملتی ہیں جبکہ تاجکستان بھی چترال سے قریب ہی واقع ہے، تاہم چترال کو افغانستان سے ملانے والی سڑکوں کی تعمیر طوالت کا شکار ہے۔

صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مزید لکھا کہ ارندو خاص کا علاقہ جلال آباد سے صرف 170 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ دوراہ پاس کی گزرگاہ تاجکستان سے 100 کلومیٹر دور ہے۔

مراسلے کے مطابق، ’اگر گرم چشمہ روڈ کی تعمیر مکمل ہو جائے تو یہ پاکستان کے پشاور شہر اور تاجکستان کے مابین مختصر زمینی راستہ ہوگا جو صرف 500 کلومیٹر پر مبنی ہوگا۔‘

چترال کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام نے بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چترال سٹی سے شاہ سلیم تک 83 کلومیٹر سڑک پر سروے کا کام جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے سروے کا کام ایک دوسری کمپنی کو دیا گیا تھا لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے وہ کمپنی پورا نہ کر سکی اور اب دوسری کمپنی کو یہ کام دیا گیا ہے۔

عہدیداد نے بتایا کہ ’ابھی دوراہ پاس کے زیرو پوائنٹ شاہ سلیم تک روڈ ٹریک موجود ہے لیکن فور بائی فور گاڑی وہاں تک جا سکتی ہے کیونکہ روڈ پختہ نہیں ہے۔‘

چترال چیمبر آف کامرس کے صدر سرتاج احمد خان کا کہنا ہے کہ 2019 میں پاکستان کسٹم سے اجازت نامہ لے کر تجارت کا آغاز کیا تھا لیکن ابھی یہ گزرگاہ بند ہے کیونکہ روڈ خستہ حالی کا شکار ہے۔

سرتاج احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی زمانے میں یہ ایک اہم گزرگاہ تھی لیکن اب دونوں جانب سے تجارت کے لیے بند ہے لیکن ابھی کوششیں جاری ہیں کہ اس کو بحال کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں