ڈاکٹر مالک بلوچ کے افسانوں کا مجموعہ مارشت سے اقتباس

قادربخش بلوچ

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔شپک ء نماسگ۔۔۔۔۔۔
میر جاوید اپنی گھومنے والی کرسی پر براحجماں ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اپنے نو آموز بالوں جو انہوں نے حال ہی میں یورپ سے پیوند کراے تھے پھیر رہا تھا۔اور کرسی کو کبھی اس طرف تو کبھی دوسری طرف جنبش دے رہا تھا۔انہیں۔کاسترو۔سے شدید نفرت تھا کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ اشتراکی نظام سرمایہ داری کی دشمن ھے۔انہیں خیالات سے نکلنے کے لیے انہوں نے اپنی سکریٹری کو بلایا۔جو بالا قد اور غضب کی نازنین تھی۔سکریٹری قیامت کی ادائیں بکھرتی ہوئی گویا ہوئی۔مزاج کیسے ہیں آپ کے۔میر جاوید خیالات کے بھنور میں تیر رہا تھا۔کہ اتنا دولت مند ہونے کے باوجود لوگ انہیں۔سمگلر۔۔کے نواسے کیوں کہتے ہیں۔پھر انہوں نے کرسی گھمایا۔ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ایک سگریٹ جلایا گہری کش لے کر سکریٹری کو بلایا اور کہا۔
میرے لئے ایک ایسے دانشور کا انتظام کرو کہ ایک کتاب لکھے اور اس میں یہ ثابت کرے کہ یہ ساری دولت میں نے اپنی محنت اور ایمانداری سے کماے ہیں۔لیکن دیان رہے کہ کتاب میں مجھے ایک دانشور اور لکھاری ظاہر کرے اور کتاب پڑھنے والے یہ سمجھیں کہ کتاب میں نے ہی لکھا ھے۔۔دفعتا ان کے دوست کمال نے دروازہ کھولا علیک سلیک کے بعد دونوں بغلگیر ہوے۔پھر بیھٹتے ہی کمال نے کہا۔
کہو کیسے ہو سمگلر کے نواسے۔
مارشت سے اقتباس
بلوچی سے اردو کا سفر۔۔قادربخش بلوچ۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں