کیا ایران کے میزائل ختم ہو رہے ہیں؟

کئی عشروں سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ایران کے پاس راکٹوں کا ذخیرہ محدود ہے اور جنگوں پر کام کرنے والے امریکی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار (آئی ایس ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کی رفتار ابتدائی لہر کے مقابلے میں پہلے کم ہو گئی ہے۔

امریکی جریدے ’فارچیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں کی شدت اور یہاں تک کہ ایرانی حکومت کو ہدف بنانے کی باتوں کے باوجود ایران نے اتنے بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی نہیں کی جتنی توقع تھی، جس وجہ یہ ہے اسرائیل نے ایران کے میزائلوں کے ذخیروں اور میزائل لانچرز کو تباہ یا متاثر کیا ہے۔

آئی ایس ڈبلیو کے محققین نے اتوار کو اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کی تعداد 12 جون سے جاری اسرائیلی فضائی مہم کے بعد کم ہو گئی ہے، کیوں کہ اس کے میزائل نظام کا ایک تہائی حصہ اسرائیلی حملوں سے متاثر ہوا ہے۔

اگرآئی ایس ڈبلیو کے تخمینے کے مطابق ایران ابتدائی حملوں میں اوسطاً 33 میزائل فائر کیے گئے، جبکہ بعد میں ہونے والے حملوں کے سلسلسے میں یہ اوسط 20 میزائل فی سلسلہ رہ گیا۔

آئی ایس ڈبلیو نے لکھا، ’ایران نے اسرائیل کے خلاف اپنی منصوبہ بندی کے مقابلے میں کہیں کم میزائل فائر کیے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فضائیہ نے ایک تہائی میزائل لانچرز اور ٹھکانوں کو نقصان پہنچایا ہے جن سے ایران نے حملے کرنے تھے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی ایس ڈبلیو کے مطابق موجودہ تصادم سے قبل امریکی اور اسرائیلی تخمینے کے مطابق ایران کے پاس تقریباً دو ہزار میزائل موجود تھے، مگر ان میں سے سب کی رینج اسرائیل تک پہنچنے کی نہیں ہے۔ جو میزائل اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں ان کی تعداد 750 سے ایک ہزار کے لگ بھگ ہے، جن میں سے ایران پہلے ہی 370 کے قریب میزائل استعمال کر چکا ہے۔

اگر یہ تخمینہ درست ہو تو ایران کے موجودہ میزائل حملے زیادہ دیر تک جاری رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ادھر اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام ایرانی بیلسٹک میزائلوں کا بھرپور دفاع کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران نے حملوں کے دوران جانی و مالی نقصان ضرور پہنچایا ہے، مگر اسرائیل کے دفاعی نظام نے زیادہ تر حملے ناکام بنا دیے، جس سے ایران کی جوابی کارروائی کی شدت محدود ہو گئی ہے۔

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ ایران کے پاس فوجی جواب دینے کے محدود آپشنز ہیں، اور اسرائیل نے اس کی مجموعی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس صورت حال میں تہران کو ایسی کارروائیوں کے بارے میں سوچنا پڑ سکتا ہے جو میزائل فائرنگ سے ہٹ کر ہوں۔

ایک ایرانی رکنِ پارلیمنٹ نے ہفتے کے روز کہا کہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ یہ آبی گزرگاہ عالمی توانائی کی تجارت میں اہم مقام رکھتی ہے، اور دنیا میں استعمال ہونے والے کل پٹرولیم مائع کا21 فیصد، یعنی یومیہ 2.1  کروڑ بیرل اسی راستے سے گزرتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو اس جنگ کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں