“ڈاکٹر یاسین بلوچ فکر و عمل کا استعارہ”

ادرش
واحد رحیم

بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ کردار ایسے ہیں جو وقتی شہرت، اقتدار یا مراعات سے بالاتر ہو کر بلند سوچ، اصول، کردار اور جدوجہد کے روشن استعارے کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسین بلوچ بھی انہی میں سے ایک معتبر نام ہیں۔ وہ ان سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی تاریخی شعور، قومی بصیرت، جمہوری اقدار اور فکری استقامت کے ذریعے عوام کو متحد اور منظم کرنے میں گزاری۔
ڈاکٹر یاسین زمانہ طالب علمی سے بی ایس او کی سیاست سے وابستہ رہے۔ وہ بی ایس او عوامی کے چیئرمین تھے اور جب بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے مابین انضمام ہوا تو ایوب جتک چیئرمین اور ڈاکٹر یاسین بلوچ سیکریٹری جنرل بنے، جبکہ 1986 میں وہ بی ایس او کے چیئرمین منتخب ہوئے اور 1988 تک طلبہ سیاست میں فعال رہے۔ 1982 سے 1988 کے دوران بی ایس او کے انضمام اور پھر 1987 میں انتشار کی صورت میں انہوں نے تنظیمی کمان سنبھالے رکھی۔
بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد وہ ڈاکٹر عبدالحی بلوچ کی قیادت میں بننے والی بی این وائی ایم میں شامل ہوئے اور بعد ازاں بی این ایم کا حصہ بنے۔ وہ مکران سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سیکریٹری مملکت کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے میرٹ اور شفافیت کو ہمیشہ اولین ترجیح دی۔
ڈاکٹر یاسین قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور نیپ کے فکری تسلسل اور میر غوث بخش بزنجو کے فکری مکتب سے شعوری وابستگی کی بناء پر نیشنل پارٹی کے بانی رہنماؤں میں شامل رہے۔ ڈاکٹر عبدالحی بلوچ، میر حاصل خان بزنجو، شہید واجہ مولا بخش دشتی کے ساتھ طویل رفاقت میں اجتماعی قیادت، صبر آزما جدوجہد اور اصولی تعاون کے حامل رہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے ہم عصر رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کے دستِ راست ہونے کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
ڈاکٹر یاسین بلوچ کا تعلق شہید رازق بگٹی، شہید حبیب جالب، ڈاکٹر کہور خان، ایوب جتک اور وحید بلوچ کے ساتھ بھی فکری و سیاسی ناطہ تغیر و تبدل پذیر رہا۔ اس دوران وہ کبھی حریف، کبھی حلیف اور مختلف مراحل میں سیاسی تجربات کے اتار چڑھاؤ سے گزرتے رہے، مگر ہمیشہ اپنے ہم خیال فکری و نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ جہد مسلسل پر کاربند رہے۔ انہوں نے اپنے اصول اور نظریاتی موقف پر ثابت قدم رہ کر بلوچستان کی سیاسی و سماجی تبدیلی کی تحریک میں اپنا منفرد اور مستحکم کردار ادا کیا۔
2003 میں جب بی این ایم (ڈاکٹر حئی) اور بی این ڈی پی (میر حاصل بزنجو) نے مل کر نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی، تو ڈاکٹر یاسین بانی رہنماؤں میں شامل رہے۔ وہ مرکزی کمیٹی کے رکن اور ضلع کیچ کے آرگنائزر مقرر ہوئے، مختلف عہدوں پر فائز رہے اور آخری ایام میں میر حاصل خان بزنجو کے دورِ صدارت میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
12 نومبر 2015 کو وہ بی ایس او “پجار” کنونشن میں شرکت کے سلسلے میں کوئٹہ سے حب جاتے ہوئے بیلہ کے مقام پر ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے، مگر ان کی یاد، ان کے اصول اور ان کی جدوجہد آج بھی ہر کارکن کے دل میں زندہ ہیں۔
یاسین بلوچ پیشے کے اعتبار سے اگرچہ معالج تھے، مگر عملاً انہوں نے اپنی زندگی سماج اور ریاست کے غیر صحت مند رویوں، ناکارہ نظام حکمرانی اور فرسودہ روایات کی تشخیص اور علاج کے لیے وقف کر دی۔ وہ انسانی اور سیاسی تندرستی کے معالج تھے، جنہوں نے جسموں سے زیادہ ضمیروں کو جگانے اور معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا کام کیا۔
ورکنگ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے ناطے ڈاکٹر یاسین نے ہمیشہ عوامی سیاست کو اپنا شعار بنایا۔ وہ محنت کشوں، طلبہ اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے سرگرم رہے۔ ان کا یقین تھا کہ بلوچستان کی ترقی، سماجی تبدیلی اور قومی خودمختاری کا سفر جمہوری جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔
انہوں نے کبھی مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ وہ بی این اے، چار جماعتی بلوچ اتحاد، پونم، اے آر ڈی، اے این ڈی ایم اور پی ڈی ایم جیسے مختلف قومی و جمہوری پلیٹ فارمز پر متحرک رہے۔ ہر جگہ ان کی شناخت ایک معتدل، پرعزم اور دانشمند سیاستدان کی رہی۔
ڈاکٹر یاسین فکری و عملی صورت میں پختہ فکری جہد کار تھے، بیک وقت قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ کل وقتی کارکن کی روپ میں بھی پیش پیش رہے۔ بلوچستان کی سیاست میں وہ روشن ستارہ اور سیاسی کارکنوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر ابھرے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ ان کی سیاسی بصیرت، تنظیمی مہارت اور نظریاتی پختگی آج بھی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کے باشعور نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
وہ صبر، استقامت، شرافتِ نفس اور تحمل مزاجی کے پیکر تھے۔ ڈاکٹر یاسین بلوچ نے اپنی زندگی کو اس یقین کے ساتھ بسر کیا کہ جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ تاریخ کے ان کرداروں میں شامل ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ کردار کی سچائی، وسیع نظری فکر اور نیت کی خلوص ہی سیاست کا اصل سرمایہ ہے۔
،”دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے” فیض احمد فیض

اپنا تبصرہ بھیجیں