ملک ابو بکرالیاس
انسان کی زندگی کی راہوں میں ایسے موڑ بارہا آتے ہیں جہاں اُمید کی روشنیاں مدھم پڑنے لگتی ہیں۔اطراف کے چہرے بدلنے لگتے ہیں اور جن لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑے تصور کیا جاتا ہے وہی کبھی کبھی راستے میں کنکر بچھانے لگتے ہیں۔ حسد، خوف، رقابت اور سازش کے۔ یہ سب انسانی تاریخ جتنے قدیم جذبے ہیں۔ آج کے دور میں بھی خواہ ماحول جدید ہو چکا ہو یا دنیا چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جارہی ہو، انسان کے دل کی تاریکیاں وہی ہیں جو صدیوں پہلے تھیں۔ جب کوئی شخص اپنے خوابوں کی طرف چلتا ہے اپنی کامیابی کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو اکثر ایسے لوگ سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں جو اُس کی روشنی کو برداشت نہیں کر پاتے۔ بہت سے لوگوں کو دوسروں کا بڑھنا، اُن کا ترقی کرنا، اُن کا پہچانا جانا ناگوار گزرتا ہے یہی سے وہ جذبہ جنم لیتا ہے جو کبھی حسد کہلاتا ہے کبھی مخالفت اور کبھی یہ مخالفت سازش کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ایسے وقت میں بہت سے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں۔ وہ حیران ہوتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ وہ لوگ کیوں بدلے جنہیں ہمیشہ اپنا سمجھا گیا؟ وہ راستہ کیوں مشکل ہوا جسے سیدھا تصور کیا جاتا تھا؟ وہ منزل کیوں دُور ہوتی دکھائی دیتی ہے جو کبھی بہت قریب محسوس ہو رہی تھی؟ اِس لمحے انسان کا سب سے بڑا امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ ردِعمل کیا دیتا ہے۔کیا وہ گھبرا کر بیٹھ جاتا ہے دل چھوڑ دیتا ہے یا پھر ٹوٹ کر بکھر جاتاہے؟ یا وہ حوصلہ جمع کرکے ہمت اور صبر کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ ٹوٹ جانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ دشمن کی جیت ہے۔ گھبرانا اور پریشان ہونا فطری سہی لیکن مستقل مایوسی انسان کے اندر کی روشنی کو بجھا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جو غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے اُسے جگانے کے لیے آزمائشیں آتی ہیں۔ مخالفین، حسد کرنے والے اور سازشیں کرنے والے دراصل انسان کے مقام کو بلند کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہی لوگ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی کامیابی اُن کے لیے خطرہ ہے۔ آپ کی ترقی اُن کی نیندیں اُڑانے لگی ہے اِس لیے حسد تب ہوتا ہے جب سامنے والے کی چمک واضح اور نمایاں ہو جائے۔ جو شخص اندھیرے میں ہو، جو شخص ناکام ہو، اُس سے تو کوئی حسد نہیں کرتا۔ حسد ہمیشہ روشنی سے ہوتا ہے۔زندگی کے اِسی موڑ پر ایک ایسا دروازہ موجود ہے جسے اکثر لوگ بھول جاتے ہیں اور وہ ہے اللہ کا دروازہ۔ یہی وہ دروازہ ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا، کبھی مایوسی نہیں دیتا اور کبھی خالی نہیں لوٹاتا۔ جب لوگ سازشیں کریں، جب حسد کرنے والے راستے روکیں، جب کامیابی کے دشمن گردشِ حالات کو آپ کے خلاف موڑ دیں تو یہی وقت ہوتا ہے کہ انسان دنیا والوں کے سامنے نہیں بلکہ رب کے سامنے جھکے۔ وہ رب جو سب جانتا ہے سب دیکھتا ہے سب سنتا ہے۔ وہ دل کے راز بھی جانتا ہے اور آنکھ کے آنسو بھی۔اللہ تعالیٰ بندے کے ٹوٹے دل کو بہت پسند فرماتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کے لوگوں سے نہیں بلکہ اپنے خالق سے بات کرتا ہے اور اِس بات کے لیے سب سے بہترین وقت رات کا آخری پہر ہے۔جب دنیا سو چکی ہوتی ہے شور ختم ہو چکا ہوتا ہے اور انسان تنہائی میں اپنے رب کے قریب کھڑا ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات جب پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے ”کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اُس کی پکار سنوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اُسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اُسے معاف کردوں؟”اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک فجر طلوع نہ ہو جائے“۔یہ الفاظ کسی فلسفے یا شاعری کے نہیں بلکہ اُس ذات کی طرف سے ہیں جو کائنات کا مالک ہے۔ اگر بادشاہ زمین پر کسی کمزور کو آواز دے کر کہے کہ آؤ جو چاہو مانگو تو انسان پروں کی طرح دُوڑ کر جاتا ہے لیکن یہاں تو بات اُس پرودگار کی ہے جس کے خزانے لامحدود ہیں جس کی عطا بے شمار ہے جس کا فضل بے کنار ہے۔ جب وہ پکارتا ہے تو اُس کی پکار کو سننے والا کون ہے؟ صرف وہ لوگ جو دنیا کی مایوسیوں سے نہیں اپنی اُمیدوں سے جیتے ہیں۔ وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ بند دروازے انسان بند کرتے ہیں لیکن کھلے دروازے اللہ کھولتا ہے۔رات کے آخری پہر اُٹھ کر سجدہ کرنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے ٹوٹے ہوئے دل کو نئی طاقت دیتا ہے۔ آنسو انسان کی کمزوری نہیں بلکہ اُس کی قوت بن جاتے ہیں۔ آنسو اللہ کی رحمت کو کھینچنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب انسان سجدے میں گریہ کرتا ہے۔ اپنے رب کو مناتا ہے۔ اپنا دل کھول دیتا ہے تو وہی دل نئی توانائی سے بھر جاتا ہے۔ یہی وہ آنسو ہیں جو مشکلوں کو آسان کر دیتے ہیں۔ وہی آنسو رب کی رحمت کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔وہی آنسو دعاؤں کو قبولیت کی طرف لے جاتے ہیں۔دنیا والوں سے بدلہ لینا، جواب دینا، لڑ پڑنایہ سب وقتی جذبات ہیں لیکن حقیقی طاقت یہ ہے کہ آپ اللہ کو اپنا وکیل بنا لیں۔ جب بندہ اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُس کا راستہ نہیں رُوک سکتی۔ دشمن کی سازشیں خود اُس کے خلاف پلٹتی ہیں۔ حسد کرنے والوں کی چالیں اُنہی کے لیے گڑھا بن جاتی ہیں۔ اللہ کی تقدیر پر بھروسہ کرنے والے کبھی نقصان میں نہیں رہتے۔ رب ہمیشہ اُن کے لیے وہ چاہتا ہے جو اُن کے حق میں بہتر ہوتا ہے خواہ وہ لمحے تکلیف ہو لیکن نتیجہ انسان کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔کامیاب وہ نہیں جو لوگوں سے بچ کر چلتا ہے بلکہ کامیاب وہ ہے جو لوگوں کے رویوں کے باوجود اپنے رب سے مضبوط تعلق رکھے۔ ہر کامیابی کا راز یہی ہے کہ انسان خود پر نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ کرے۔ مشکلات آئیں گی، لوگ باتیں کریں گے، راستے روکیں گے لیکن وہ شخص نہیں رُکتا جو اللہ پر بھروسہ کر رہا ہو۔ دنیا والوں کی سازشیں عارضی ہوتی ہیں مگر رب کی مدد دائمی ہوتی ہے اِسی لیے جب لوگ تمہیں توڑنے کی کوشش کریں، جب تمہاری کامیابی اُن کے لیے تکلیف کا باعث بن جائے، جب وہ حسد میں تمہارے خلاف منصوبے بنائیں تو نہ گھبراؤ، نہ پریشان ہو بلکہ رات کے آخری پہر خاموشی سے اُٹھو، اللہ کے حضور سجدہ کرو، اپنے آنسوؤں سے اپنے دل کی بات کہو اور اُس رب سے مانگو جس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عطا کرے گا۔ اُس کے وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے، اُس کی رحمت کبھی دُور نہیں ہوتی۔ کعبہ کے رب کی قسم جب اُس کے حضور دل جھک جاتا ہے تو دنیا کے تمام دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔

