”انا“۔۔۔۔۔انسان کا خاموش مگر سب سے خطرناک دشمن

تحریر:رشیداحمدنعیم
انسان کی ترقی، کامیابی اور شخصیت کی تعمیر میں بے شمار عناصر شامل ہوتے ہیں مگر ان سب میں ایک ایسا عنصر بھی ہے جو چاہے تو انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دے اور اگر چاہے تو اسے زمین پر لا پھینکے۔ یہ عنصر ہے ”خودی“ لیکن اسی خودی کے پہلو میں چھپی ایک تاریک، زہریلی اور تباہ کن کیفیت ہے جسے ہم”انا“کہتے ہیں۔انا ایک خاموش آفت ہے۔ یہ وہ آ تش ہے جو باہر سے تو ٹھنڈی اور بے ضرر نظر آتی ہے مگر اندر ہی اندر سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انسان کو یہ آتش خود اپنے ہاتھوں سے جلانی پڑتی ہے اور افسوس یہ کہ انا پرست انسان کو کبھی احساس نہیں ہوتا کہ اس کے اردگرد جو کچھ برباد ہو رہا ہے وہ اسی کے اندر کی آگ کا نتیجہ ہے۔انا برتری کا وہ فریب ہے جو انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ”میں بہتر ہوں، میں اعلیٰ ہوں، میں کسی کے سامنے نہیں جھک سکتا، مجھے کسی کی بات ماننے کی ضرورت نہیں۔“یہ فریب انسان کے کانوں میں مسلسل سرگوشیاں کرتا رہتا ہے کہ تم سب سے زیادہ عقلمند ہو،تم سب سے زیادہ سمجھدار ہو،تم سب سے زیادہ ماہر ہو،تمہاری غلطی غلطی نہیں، دوسروں کی اصلاح ضروری ہے،تم کیوں جھکو؟ جھکنا کمزوری ہے اور یہی وہ جھوٹ ہے جس پر انسان یقین کرنے لگتا ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو انسان کے گرد ایک ایسی دیوار کھڑی کر دیتا ہے جس کے پار دوسروں کی بات سننا، سمجھنا، قبول کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔انا صرف دیوار نہیں، ایک قید خانہ بھی ہے اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ اس قید خانے میں انسان خود قیدی بھی ہے اور قید کرنے والا بھی خود ہی ہے۔انا رشتے توڑتی ہے۔انا محبتوں کو زہر آلود کرتی ہے۔انا اعتماد کو کھا جاتی ہے۔انا انسان کو تنہا کر دیتی ہے۔ہم اپنے معاشرے میں روز دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر، معمولی اختلافات پر، ذرا سی تلخی پر لوگ رشتے ختم کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ سالوں پرانی محبتیں، قربتیں، رفاقتیں ایک لمحے کی زد میں آکر ٹوٹ جایا کرتی ہیں۔صرف اس لیے کہ میں پہلے کیوں معافی مانگوں؟ میں جھک کیوں جاؤں؟ میں کیوں قدم بڑھاؤں؟کیا یہ ضد ہے؟کیا یہ طاقت ہے؟یا پھر یہ وہی انا ہے جو انسان کو انسانوں سے کاٹ دیتی ہے؟انا ہمیشہ جیتتی ہے لیکن اس کی ہر جیت میں انسان کی ہار چھپی ہوتی ہے۔جب انا جیتتی ہے تودوستی ہار جاتی ہے،محبت ہار جاتی ہے،گھر ہار جاتا ہے،عزت ہار جاتی ہے،امن ہار جاتا ہے،خود انسان ہار جاتا ہے۔انا پرست آدمی ایک وقت کے بعد اپنے اندر بند ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ سب کو جانتا ہے مگر کوئی اسے نہیں جان پاتا۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ سب کو سمجھتا ہے مگر کوئی اسے نہیں سمجھ سکتا۔ پھرانسان اکیلا رہ جاتا ہے۔اکیلا۔۔۔تنہا۔۔۔شکست خوردہ۔۔۔اندر سے خالی۔۔۔کیونکہ انا کی راہ پر چلنے والے لوگ کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔ یہ راستہ منزلوں کا نہیں، خسارے کا ہے۔انا صرف رشتے نہیں توڑتی، خواب بھی توڑتی ہے۔انسان کے اندر ہزاروں خواہشیں جنم لیتی ہیں، بڑی بڑی منزلیں انسان کو آواز دیتی ہیں مگر وہ منزلیں ایک چیز کی دشمن ہوتی ہیں اور وہ ہے”انا“ کیونکہ کامیابی کا راستہ عاجزی سے گزرتا ہے۔جو شخص سیکھنے کے لیے جھکتا نہیں، وہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔جو شخص اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا وہ کبھی اچھا انسان نہیں بن سکتا۔جو شخص اپنی کمزوری کو ماننے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی طاقتور نہیں ہو سکتا۔انا پرست لوگ اپنی ذات کے سمندر میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں۔ وہ دوسروں سے سیکھنے کو کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ وہ مشورہ لینے کو اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی پر اڑنے کو بہادری سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کرنا ہی سب سے بڑی بہادری ہے۔انا دل کو سخت کر دیتی ہے۔ایسا سخت کہ پھر نہ محبت باقی رہتی ہے، نہ معافی، نہ احساس، نہ نرمی۔ایسے لوگ دوسروں کی ادنیٰ سی غلطی کو اپنی توہین سمجھ لیتے ہیں۔اگر کوئی ان کی بات نہ مانے تو ان کے اندر کا غرور تڑپ اٹھتا ہے۔اگر کوئی اختلاف کرے تو انہیں لگتا ہے کہ ان کی بادشاہت چیلنج ہو گئی ہے۔وہ انا کے سامنے انسانیت کو قربان کر دیتے ہیں۔وہ اپنے جذبات کی لاش خود اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے ہیں اور بعد میں سمجھتے ہیں کہ غلطی ان کی نہیں تھی، دوسروں کی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ غلطی ہمیشہ انا کی ہوتی ہے۔”انا“ زبان پر قفل اوردل پر زنجیربن جاتی ہے۔انا انسان کو اپنی زبان سے دو لفظ ”معاف کیجیے“ کہنے نہیں دیتی۔یہ دو لفظ اگر کہہ دیے جائیں تو کتنے رشتے بچ سکتے ہیں، کتنے دل جڑ سکتے ہیں، کتنی زندگیاں بدل سکتی ہیں مگر انا کہتی ہے کہ ”تم کیوں کہو؟تم کیوں جھکو؟تم کیوں پہل کرو؟”انسان زبان بند رکھ کر اپنے رشتے دفن کرتا رہتا ہے۔انا پرست آدمی تب سمجھتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔جب سب لوگ چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔جب وہ تنہا بیٹھا اپنے شکستہ دل کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔جب اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں کچھ قیمتی چیزیں تھیں جو اب کبھی واپس نہیں مل پائیں گی اور ان کے ضائع ہونے کی وجہ کوئی دوسرا نہیں صرف اس کی اپنی انا تھی تب انسان چیخ کر کہتا ہے”کاش میں تھوڑا سا جھک جاتا!“مگر افسوس کہ وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ انسان بدل تو جاتا ہے مگر حالات نہیں بدلتے۔ رشتے واپس نہیں آتے۔ دل دوبارہ نہیں جڑتے۔سب سے پہلے اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا واقعی میں ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہوں؟کیا واقعی میری بات ہمیشہ درست ہوتی ہے؟کیا واقعی دوسروں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں؟ان سوالات کے جواب آپ کی انا نہیں، آپ کی عقل دے گی۔خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا چھوڑیں۔ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ہے۔دنیا میں کوئی بھی شخص مکمل نہیں تو پھر ہم کیوں خود کو کامل سمجھ بیٹھتے ہیں؟غلطی انسان سے ہوتی ہے، فرشتوں سے نہیں لیکن غلطی ماننا انسانیت کی دلیل ہے۔جھکنے کو کمزوری نہیں،طاقت سمجھیں۔جھکنے والا درخت ہی پھل دیتا ہے جو درخت سخت ہو جاتا ہے، آندھی میں ٹوٹ جاتا ہے۔معافی مانگنے میں پہل کریں۔اس سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔جو شخص ”معاف کیجیے“ کہتا ہے وہ دوسروں کے دل جیت لیتا ہے۔دل کو نرم رکھیں نرم دل پھول کی طرح ہوتا ہے۔سخت دل پتھر کی طرح ہوتا ہے اور پتھر کبھی کسی کو سایہ نہیں دیتا۔زندگی بہت چھوٹی ہے۔رشتے بہت نازک ہیں۔دل بہت قیمتی ہے۔وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے اگر آپ انا پرست ہیں تو رک کر ایک لمحہ ضرور سوچیں کہ کیا یہ ضد، یہ غرور، یہ اکڑ آپ کو واقعی وہ دے رہی ہے جو آپ چاہتے ہیں یا یہ آپ سے وہ سب کچھ چھین رہی ہے جو آپ کے پاس بہترین تھا؟یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔زندگی میں سب سے بڑی جیت وہ ہے جب انسان اپنی انا پر جیت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ جو اپنی انا کو شکست دے دے، دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں