ترقی پذیر دنیا کا نیا ممکنہ معاشی سفر

رشید صافی
دنیا اس وقت مالیاتی تبدیلیوں سے دوچار ہے اور ترقی پذیر ممالک مغربی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط سے بیزار ہو کر ایک نئے اور زیادہ متوازن مالیاتی ڈھانچے کی تلاش میں ہیں۔ یہ بیزاری محض ایک اتفاق نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط تجربات کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک نے خود کو ایسے قرضوں اور منصوبوں میں جکڑا پایا جن کی شرائط اکثر ان کی معاشی خودمختاری اور مقامی ضروریات سے متصادم تھیں۔ مغربی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط میں عام طور پر قرضوں کے بدلے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز شامل ہوتے ہیں‘ جن میں حکومتی اخراجات میں کمی‘ نجکاری‘ سبسڈی کا خاتمہ اور محصولات میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ ان شرائط کا مقصد بظاہر معیشت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے مگر عملی طور پر یہ اکثر سماجی شعبوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں‘ غربت میں اضافہ کرتے ہیں اور حکومتی اداروں کی رِٹ کو کمزور کرتے ہیں۔ مغربی مالیاتی ادارے قرض دیتے وقت سیاسی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی شرائط بھی عائد کرتے ہیں‘ جنہیں ترقی پذیر ممالک اپنے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت سمجھتے ہیں۔ مغربی مالیاتی اداروں سے ترقی پذیر ممالک کی بیزاری کی بنیادی وجوہات میں ان اداروں کی غیر لچکدار شرائط‘ فیصلوں میں طاقت کا عدم توازن اور ایسے حل تجویز کرنا جو مقامی ثقافتی اور سماجی سیاق وسباق سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ ان ممالک کو یہ بھی شکایت ہے کہ ان اداروں سے قرض حاصل کرنے کا عمل انتہائی طویل‘ پیچیدہ اور غیر شفاف ہوتا ہے‘ جس کے باعث ہنگامی ضروریات اور فوری ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس بیزاری نے ترقی پذیر ممالک کو متبادل ذرائع کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا ہے‘ جہاں انہیں شراکت داری‘ مساوات اور احترام پر مبنی مالیاتی حل مل سکیں۔ اس تناظر میں ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جیسے ادارے اُبھر کر سامنے آئے ہیں جو ترقی پذیر دنیا کی ضروریات کو بہتر انداز میں سمجھتے ہوئے ایک نئے معاشی سفر کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) نہ صرف ایک متبادل مالیاتی ذریعہ ہے بلکہ ایک وژن ہے جو ترقی کے بنیادی ڈھانچے کو قوموں کی خودمختاری‘ ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی سے جوڑتا ہے۔ اے آئی آئی بی کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی جب گلوبل سائوتھ ممالک کو محسوس ہوا کہ ان کی مالی ضروریات اور ترقیاتی ترجیحات کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان اداروں کی شرائط اکثر سخت‘ سیاسی اور معاشی طور پر دبائو ڈالنے والی ہوتی ہیں۔ ایسے میں چین نے ایک ایسا ادارہ متعارف کرایا جس کا مقصد صرف سرمایہ فراہم کرنا نہیں بلکہ ترقیاتی خودمختاری‘ علاقائی تعاون اور ایک نئے مالیاتی عالمی نظام کی بنیاد رکھنا تھا۔ آج اے آئی آئی بی سو سے زائد رکن ممالک پر مشتمل ایک طاقتور اور متحرک ادارہ ہے جو بلاامتیاز ترقی کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اے آئی آئی بی کی رکنیت ابتدائی مراحل میں اختیار کی۔ پاکستان کی معیشت ایک دہائی سے مسلسل چیلنجز کا شکار رہی ہے‘ جن میں تجارتی خسارہ‘ کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگے قرضے شامل ہیں۔ ایسے میں اے آئی آئی بی پاکستان کیلئے امید کی نئی کرن ثابت ہو رہا ہے۔ اے آئی آئی بی کے ذریعے پاکستان نے اپنے کئی اہم ترقیاتی منصوبے مالی طور پر مستحکم کیے ہیں۔ گوادر پورٹ کی توسیع‘ ایم ایل ون ریلوے لائن‘ سپیشل اکنامک زونز اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے ان میں سرفہرست ہیں۔ اے آئی آئی بی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ قرضہ دیتے وقت نہ صرف شرائط کو نرم رکھتا ہے بلکہ منصوبے کی مقامی ضروریات اور جغرافیائی سیاق وسباق کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ اے آئی آئی بی چین اور پاکستان کے سٹرٹیجک تعاون کی نئی جہت ہے۔ چین اور پاکستان نے نہ صرف انفراسٹرکچر‘ تجارت اور توانائی کے شعبے میں اشتراک کیا ہے بلکہ اب وہ مالیاتی نظام کو بھی نئی شکل دے رہے ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اے آئی آئی بی کی شمولیت منصوبے کو مالی تقویت دے گی جس سے بین الاقوامی اعتماد بھی حاصل ہوگا۔ پاکستان اور چین کی کوشش ہے کہ اے آئی آئی بی کو ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو نہ صرف ایشیا بلکہ افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ میں بھی ترقیاتی عمل کو تیز کر سکے۔ اس مقصد کیلئے دونوں ممالک نے ماحولیاتی منصوبوں‘ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور انسانی ترقی پر مشتمل ایک مشترکہ وژن پیش کیا ہے۔ اے آئی آئی بی نے دنیا کے اُن ممالک کو بھی سہارا دیا ہے جو روایتی مالیاتی اداروں کے سامنے اپنی آواز اٹھانے سے قاصر تھے۔ اے آئی آئی بی کا بنیادی ماڈل ترقیاتی خودمختاری پر مبنی ہے۔ یہ ادارہ قرض دینے سے پہلے شرائط نہیں رکھتا۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ منصوبہ شفاف ہو‘ ماحولیاتی اثرات مثبت ہوں اور مقامی معیشت کو فائدہ پہنچے۔ اسی لیے افریقی ممالک‘ وسط ایشیائی ریاستیں حتیٰ کہ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک اے آئی آئی بی کو اپنے معاشی مستقبل کا حصہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ اس ادارے کی شفافیت اور تیزی سے فیصلے کرنے کی صلاحیت اسے باقی مالیاتی اداروں سے ممتاز کرتی ہے۔
اس سال ہونے والا اے آئی آئی بی کا اجلاس کئی حوالوں سے خاص ہے۔ ایک طرف یہ ادارے کی دسویں سالگرہ ہے اور دوسری طرف دنیا ایک بار پھر جغرافیائی تنائو‘ ماحولیاتی خطرات اور ڈیجیٹل معیشت کے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں اے آئی آئی بی نے نئے اہداف مقرر کیے ہیں‘ جن میں گرین انرجی پر 50فیصد فنڈز کی تخصیص‘ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو ترجیح‘ علاقائی منصوبوں کیلئے کراس بارڈر فنانسنگ‘ مقامی کرنسیوں میں قرضوں کا اجرا اور خواتین کی معاشی شمولیت اور سماجی تحفظ پر منصوبے شامل ہیں۔ یہ اقدامات اے آئی آئی بی کے اس وژن کو ظاہر کرتے ہیں کہ اب ترقیاتی ماڈلز کو صرف سڑکوں اور پلوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ انسانی فلاح‘ سماجی استحکام اور ماحولیاتی توازن کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ پاکستان نے حال ہی میں چین کی مدد سے ”پانڈا بانڈز‘‘ کا اجرا کیا ہے‘ جس کا مقصد چینی کرنسی میں سرمایہ کاری حاصل کرنا ہے تاکہ پاکستان کی زرِمبادلہ کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ یہ اقدام پاکستان کے مالیاتی تنوع اور خودمختاری کی جانب ایک قدم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا اے آئی آئی بی اجلاس میں شرکت کا امکان ہے۔ ان کے ہمراہ اعلیٰ سطحی وفد بھی ہو گا‘ جس میں انفراسٹرکچر‘ توانائی اور خزانہ کے ماہرین شامل ہوں گے۔ اجلاس میں پاکستان کئی نئے منصوبے پیش کرے گا‘ جن میں قابلِ تجدید توانائی کے پارکس‘ بلوچستان کیلئے سمارٹ سٹی پروجیکٹ اور گلگت بلتستان کیلئے واٹر مینجمنٹ سسٹمز شامل ہیں۔
اس پس منظر میں ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اے آئی آئی بی صرف ایک بینک نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ یہ تحریک مالیاتی آزادی‘ ترقیاتی انصاف اور عالمی تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ یہ بینک ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ترقی صرف وہی معنی نہیں رکھتی جو واشنگٹن یا نیویارک میں طے کیے جائیں بلکہ ترقی کا مطلب وہی ہے جو مقامی باشندوں کی ضروریات اور خوابوں سے مطابقت رکھتا ہو۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ بینک نہ صرف معاشی امداد کا ذریعہ ہے بلکہ ایک نیا مالیاتی تشخص بھی ہے۔ اب پاکستان اپنی شرائط پر ترقیاتی سفر طے کر سکتا ہے‘ بیرونی سیاسی دبائو کا سامنا کیے بغیر ۔ 2025ء اے آئی آئی بی اجلاس نہ صرف ایک سالانہ تقریب ہے بلکہ یہ ایک عہدِ نو کا اعلان ہے جہاں ترقی مساوات‘ خودمختاری اور شراکت پر مبنی ہو گی۔ پاکستان اور چین اس سفر کے اہم کردار ہیں اور ان کی مشترکہ حکمت عملی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جب اقوام اپنی ترقی کا ماڈل خود طے کرتی ہیں تو وہی اصل خودمختار ترقی ہوتی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ وقت ہے کہ اے آئی آئی بی جیسے ادارے کے ذریعے اپنی معاشی سمت کو مستحکم کرے‘ اپنی ضروریات کو خود بیان کرے اور ایک نئے مالیاتی عالمی نظام کا حصہ بنے ایسا نظام جو انصاف پر مبنی ہو‘ ترقی کا علمبردار ہو اور گلوبل سائوتھ ممالک کے خوابوں کا محافظ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں