خالد مسعود خان
بعض اوقات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ کالم کا آغاز کہاں سے اور کیسے کیا جائے۔ تھوڑا عرصہ پہلے ملتان میں ٹریفک کا ایک المناک حادثہ ہوا۔ بظاہر یہ ایک ٹریفک حادثہ تھا اور ظاہر ہے اس ملک میں جہاں روزانہ درجنوں نہیں سینکڑوں حادثے وقوع پذیر ہوتے ہوں جن میں دسیوں لوگ جاں بحق ہو جاتے ہوں‘ دو افراد کی جان لینے والا یہ حادثہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ ملتان میں ہونے والا یہ ٹریفک حادثہ دراصل حادثہ نہیں ہے‘ یہ ایک سانحہ ہے۔ ایک ایسا المیہ ہے جو ایک خاص ذہنیت کا عکاس ہے اور یہ ذہنیت آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھتی جا رہی ہے۔ امارت‘ طاقت‘ اختیار‘ حیثیت اور زور آوری کا نشہ اس پورے معاشرے کو کھا رہا ہے اور اس سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہم اب ان رویوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست مرحوم عنایت علی خان نہایت ہی شاندار مزاحیہ شاعر تھے مگر وہ ایسے ایسے سنجیدہ شعروں کے خالق ہیں کہ سن کر مزہ آ جاتا ہے۔ یہ شعر بھی ان کے ایسے شعروں میں سے ہے:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مذکورہ حادثہ بھی ایک ایسا ہی سانحہ تھا۔
بوسن روڈ ملتان کی مصروف ترین سڑک ہے۔ حالانکہ یہ سڑک ملتان کی دیگر سڑکوں کی نسبت قدرے کشادہ ہے لیکن ٹریفک کے بے پناہ دباؤ کے باعث صبح اور شام کے وقت یہاں بعض جگہوں پر ٹریفک جام ہو جانا معمول کی بات ہے۔ ایک تو اس سڑک پر گاڑیوں کا اژدہام ہوتا ہے اوپر سے سڑک کے درمیان بنے ہوئے میٹرو بس سروس کے ایلیویٹڈ ٹریک کے ستونوں اور ڈیوائڈرز نے کافی جگہ گھیر لی ہے۔ مزید برآں ون وے ٹریفک کو رواں رکھنے کی غرض سے چار کلو میٹر کے لگ بھگ اس فاصلے میں چھ عدد یوٹرن بھی ہیں مگر جتنا گھڑمس اور ون وے کی خلاف ورزیاں ان یوٹرنز پر دیکھنے میں آتی ہیں وہ صرف دیکھنے اور کڑھنے کی چیز ہیں۔ سرکار کی ہر کاوش کا توڑ ہمارے عوام کے پاس ہے۔ اسی سڑک پر ان تمام تر ممکنہ خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک عدد Dedicated U-turn بھی بنایا گیا ہے مگر اس یوٹرن کو ون وے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے ناممکن بنانے کی ہر کوشش مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ خیر یہ تو اس سڑک کا ایک اجمالی جائزہ تھا اب اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔
تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ شہر سے یونیورسٹی کی طرف جائیں تو چیزاپ سے چند گز آگے چوتھا یوٹرن آتا ہے۔ یہاں کافی رش ہوتا ہے اور جہاں رش ہو وہاں یار لوگ ہر ممکن طریقے سے اس کا کوئی توڑ‘ جو ظاہر ہے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتا ہے‘ نکالتے ہیں۔ ایک گاڑی جو یونیورسٹی کی طرف سے آ رہی تھی اس یوٹرن پر مڑ کر پیچھے جانے کی منتظر تھی۔ اسی اثنا میں شہر سے یونیورسٹی کی طرف جانے والی ایک بڑی ایس یو وی گاڑی اسی یوٹرن سے دوسری طرف جانے کے لیے مڑ رہی تھی مگر یہ بڑی گاڑی یوٹرن پر واپس پیچھے مڑنے کے بجائے دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک کے مخالف سمت سامنے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یعنی اس یوٹرن پر واپس پیچھے مڑنے کے بجائے قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹریفک کی مخالف سمت جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اب خدا جانے اس دوران دونوں گاڑیوں کے درمیان کوئی لفظی مجادلہ ہوا یا کوئی تلخی ہوئی‘ تاہم ہوا یہ کہ چھوٹی گاڑی والا تو اپنے طے شدہ راستے پر جانے کے لیے یوٹرن لے کر مڑ گیا مگر اس دوران بڑی گاڑی والے نے اپنے طے شدہ راستے پر جانے پر لعنت بھیجی اور اپنی گاڑی جو پہلے بھی ٹریفک کے بہاؤ کے خلاف جا رہی تھی‘ ریورس کی اور چھوٹی گاڑی والے کے پیچھے لگا دی۔ میں گو کہ موقع پر موجود نہیں تھا تاہم میں یہ ساری صورتحال اس لیے نہایت یقین اور تفصیل سے لکھ رہا ہوں کہ اس واقعے کا راوی کوئی چشم دید گواہ ٹائپ آدمی نہیں بلکہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جو میں نے کئی بار دیکھی ہے۔ اس میں دونوں گاڑیوں کے ڈرائیورز محض چند لمحوں کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے ہیں اور اسی دوران گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے اگر ان کے درمیان کوئی لفظی مجادلہ‘ کوئی تلخی یا ممکن ہے کوئی اشاراتی معرکہ وقوع پذیر ہوا ہو‘ مگر فوٹیج میں اس کا پتا نہیں چلتا تاہم دونوں ڈرائیور اپنی گاڑیوں میں ہی رہے۔
چھوٹی گاڑی یوٹرن لے کر مڑی اور اپنے راستے پر روانہ ہو گئی تاہم بڑی گاڑی والے نے اپنی منزل مقصود کی طرف جانے کے بجائے چھوٹی گاڑی والے کو سبق سکھانے کی سوچی اور اپنی گاڑی ریورس کی اور اس کے پیچھے لگا دی۔ بڑی گاڑی والے نے اس مصروف ترین سڑک پر اس چھوٹی گاڑی کوسائیڈ سے گھیر کر روکنے کی کوشش کی تو اس نے گھبرا کر‘ خوفزدہ ہو کر اور ڈر کر اپنی گاڑی بھگانا شروع کر دی۔ دوسری طرف اسے سبق سکھانے پر تلے ہوئے بڑی گاڑی کے ڈرائیور نے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ چھوٹی گاڑی والا بھاگتے بھاگتے پانچ کلو میٹر سے بھی کچھ زیادہ فاصلے پر واقع بہاء الدین زکریا یونیورسٹی پر ختم ہونے والے میٹرو ٹریک کے اوپر سے گھوم کر واپس شہر کی طرف پلٹا۔ اس دوران بڑی گاڑی والا شاید ٹریفک کی وجہ سے چھوٹی گاڑی کو آگے جا کر نہ روک سکا یا ممکن ہے وہ چوہے بلی والے کھیل سے لطف لے رہا تھا‘ بہرحال چھوٹی گاڑی والا میٹرو بس کے اختتامی سٹیشن پر بنے گول دائرے سے پلٹ کر دوبارہ شہر کی طرف بھاگا۔ خوفزدہ ڈرائیور بچنے کے لیے گاڑی ممکنہ حد تک تیز بھگا رہا تھا۔ اس تیز رفتاری اور خوف کی کیفیت میں وہ میٹرو ٹریک کے درمیان سے گزرنے والے راستے پہ پہلے بنے ہوئے سپیڈ بریکر کو نہ دیکھ سکا۔ گاڑی اس سپیڈ سے اچھلی‘ بے قابو ہوئی اور دو موٹر سائیکل سواروں سے ٹکراتی ہوئی میٹرو کے جنگلے میں جا لگی۔ چھوٹی گاڑی کا ڈرائیور اور ایک موٹر سائیکل سوار موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ بڑی گاڑی والے نے رک کر حادثے کا جائزہ لیا۔ چھوٹی گاڑی کی مکمل تباہی ملاحظہ فرمائی۔ دل کو تسلی ہوئی کہ اس کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر شرمندہ کرنے والا اپنے کیفر کردار تک پہنچ چکا ہے۔ پھر کسی زخمی یا جاں بحق ہونے والے کو ہسپتال پہنچانے تک کی زحمت گوارا نہ کرتے ہوئے اطمینان اور سکون سے واپس چل پڑا۔ چند گز کا فاصلہ اور چند لمحے بچا کر ون وے کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیور نے چھوٹی گاڑی والے کو سبق سکھانے کے لیے اس کا مسلسل سات آٹھ کلو میٹر تک پیچھا کیا۔ اس دوران اسے کوئی جلدی نہ تھی۔ میں یہ ساری تفصیل بھی جائے حادثہ کی وڈیو دیکھنے کے بعد لکھ رہا ہوں۔
آپ یقین کریں یہ حادثہ نہیں‘ یہ سانحہ ہے اور یہ اس رویے کا نتیجہ ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کو کھا رہا ہے۔ کوئٹہ میں ٹریفک وارڈن کو کچلنے والے واقعے میں اگر رکن اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کو سزا ہو جاتی اور وہ چند روزہ مقدمے کی خجالت سے فارغ ہونے کے بعد وکٹری کا نشان بناتا ہوا اسمبلی میں نہ آتا۔ شاہزیب کو سرعام قتل کرنے والا شاہ رخ جتوئی انگلیوں سے ”V‘‘ یعنی فتح کا نشان بناتا ہوا باعزت بری ہو کر جیل سے باہر نہ آتا۔ اگر ارب پتی دانش اقبال کی اہلیہ موٹر سائیکل سوار باپ اور بیٹی کو نشے کی حالت میں اپنی جہازی گاڑی کے نیچے کچل کر مارنے کے بعد باعزت بری نہ ہو جاتی تو یہ روایت پنپنے کے بجائے ختم ہو جاتی‘ مگر یہ ریاست ہم جیسے لاوارثوں کے بجائے زور آوروں کے تحفظ کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہے اور یہی ریاستی رویہ ان ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور اس کی بہتری کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔
