ایاز امیر
انقلاب آیت اللہ خمینی والا تھا جس میں مخالفین کا قلع قمع کرکے ایران پر مخصوص مذہبی حاکمیت قائم ہوئی۔ جہاد وہ تھا جو امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں سے افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف لڑا گیا۔ آج ایرانی انقلاب اسرائیل کے حملوں کی زد میں آکر مشکل میں آچکا ہے۔ اس کے علاقائی اتحادیوں‘ حزب اللہ اور حماس کی کمر اپنی غلطیوں کے نتیجے میں ٹوٹ چکی ہے۔ افغانستان والا جہاد اندھیروں میں گم ہوچکا ہے۔ پاکستان جو افغان جہاد کا سب سے بڑا پروموٹر تھا اسے بہت دیر بعد بیرونی لڑائیوں میں ملوث ہونے کے منفی نتائج کا کچھ ادراک ہونے لگا ہے۔
ایران کے حاکموں نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن جانا اور اندرونی ترجیحات کو ایک طرف رکھ کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مورچے باندھے۔ امریکہ کو موت کے نعروں سے للکارا گیا حالانکہ سوچا جائے تو امریکہ شاہ کے ایران میں مداخلت تو کرتا رہا لیکن جس قسم کی بربریت امریکہ نے ویتنامی قوم سے کی ایسا کچھ ایران میں نہ ہوا۔ ایک تاریخی خونیں جنگ کے باوجود ویتنام نے امریکہ دشمنی سے نکل کر امریکہ سے نارمل تعلقات استوار کر لیے لیکن ایرانی حاکم امریکہ دشمنی سے نکل نہ سکے اور شاید اُس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ دشمنی کے نعرے کو ایران میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ امریکہ اور اسرائیل دشمنی میں حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں کو کھڑا کرنا تھا تو باقی عرب ممالک سے تعلقات ٹھیک رکھے جاتے۔ ہر ایک کو دشمن بنالینا کہاں کی حکمت عملی کہلائے گی؟
یہ درست ہے کہ آس پاس کے عرب حاکموں نے صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اُکسایا۔ ایران اور عراق میں آٹھ سال خونریز جنگ رہی اور عرب حاکم اس منظر کو دیکھتے رہے۔جس سے یہ خیال اٹھتا ہے کہ ہم جو آج کے مسلمان ہیں عجیب لوگ ہیں۔ اپنے مسائل ہم سے حل ہوتے نہیں اور گلہ دوسروں کا کرتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اپنے مفادات دیکھنے ہیں نہ کہ ہماری خیر کرنی ہے۔ یہاں کے ممالک اُنہیں موقع دیں تو اُس کا فائدہ وہ ضرور اٹھائیں گے‘ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایران کے حاکموں کو بنیادی فیصلہ یہ کرنا چاہیے تھا کہ صف بندی امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کرنی ہے یا آس پاس کے عرب ممالک کے خلاف۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے جو بات سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے امریکیوں سے کہی تھی کہ سانپ مارنا ہو تو سرکچلنا چاہیے۔ سانپ سے اُن کی مراد ایران تھی۔ یہاں تک نوبت نہیں آنی چاہیے تھی۔
اعتراض بجا ہوگا اگر کوئی کہے کہ ایران کی اس مشکل کی گھڑی میں فضول کا فلسفہ جھاڑنے کی کیا ضرورت۔ اس مشکل کی گھڑی کو دیکھ کر ہی دل میں غبار اُٹھتا ہے۔ اب ایران کے سامنے دو ہی راستے ہیں؛ ڈٹ کے لڑتا رہے اور مزید تباہی مول لے یا امریکہ کے کہنے پر مذاکرات کی میز پر آئے۔ تباہی کے مناظر ہم نے غزہ میں دیکھ لیے۔ امریکی حمایت کے ساتھ اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ ایران کی مزید تباہی ہو اور امریکہ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ بی ٹو‘ بھاری بمبار طیارے ایران کے جوہری تنصیبات کے خلاف استعمال ہوں۔ ان حالات میں ایران تباہی کا راستہ ترک کرکے مذاکرات کی طرف آتاہے تو اس راستے میں بہرحال سبکی تو ہے۔ جوہری ہتھیار یعنی آٹھ دس ایٹم بم ایران کے پاس ہوتے پھر بات اور تھی۔ نہ حملہ ہوتا نہ تباہی کے طوفان اُٹھتے۔ اسی لیے ایران کے حاکموں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اتنے سال آپ کرتے کیا رہے؟ یا تو جوہری پروگرام کی طرف جاتے ہی نا۔ لیکن جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے پر دستخط‘ مزاحمت کے نام پر دشمنیاں پالنا اور پھر ساتھ ہی جوہری پروگرام چلانا۔ چلانا ہی تھا توکسی نتیجے پر پہنچتے۔ آج سے بیس سال پہلے انہیں ایک عدد ایٹمی تجربہ کر لینا چاہیے تھا۔ جیسا ہم نے کیا۔ ان سے نہ ہوا اور آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
طالبان کے بارے میں کیا کہیں‘ وہ اپنے ملک کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہیں‘ جو نظام وضع کرنا چاہتے ہیں یہ اُن کا دردِسرہے۔ وہ بخارجو ہمارے عمائدینِ ملت نے پال رکھا تھا کہ افغانستان میں جہادسے ہمارا وہاں اثرورسوخ قائم ہو گا‘ بہت حد تک ختم ہوچکاہے۔اس حوالے سے دانشورانِ ملت کی سوچ بدل چکی ہے۔اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں یہ طالبان کی مہربانی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد انہوں نے اپنے تحریک طالبان پاکستان کے حواریوں کو کوئی لگام نہ ڈالی۔ ہم جو اُن کے پردھان تھے‘ چیختے چلاتے رہے کہ ٹی ٹی پی کا ہاتھ روکا جائے لیکن ہماری تمام معاونت کا صلہ طالبان نے یوں دیا کہ ٹی ٹی پی کوروکنا تو دور کی بات اُنہیں ایک قسم کی اشیرباد ملتی رہی۔ تبھی ہمارے ہوش ٹھکانے آئے اور عمائدینِ ملت کی سوچ کے دریچے کچھ کھلنے لگے۔
سوچنا تو مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ دنیا میں اُن کی ثانوی یا سیکنڈ کلاس حیثیت کیوں ہے؟ ترقی اور طاقت کی دوڑ میں وہ پیچھے کیوں ہیں؟ مشرقِ وسطیٰ کا تو کوئی حال ہی نہیں۔ حالیہ دور کی بات ہے کہ تین مسلم ممالک کو تباہ ہوتے ہم نے دیکھا…عراق‘ لیبیا‘ شام۔ اور اب ایک بڑے اور طاقتور اسلامی ملک کی تباہی کا انتظام ہو رہا ہے۔ یہاں تک نوبت کیسے پہنچی؟ امیر ترین مسلم ممالک اپنی حفاظت کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ اُن کی مجبوری ہے۔ اپنی حفاظت کر نہیں سکتے اور جس قسم کی نظریاتی ہم آہنگی یورپ میں دیکھی جاسکتی ہے وہ عرب یا اسلامی دنیا میں نہیں۔ سعودی عرب کو خطرہ کبھی اسرائیل سے نہیں تھا‘ اُس کی فکر کا دائرہ ایران اور اُس کے حاکموں کے عزائم کے گرد رہا۔ یہ کمزوری اجتماعی مسلم سوچ کی تھی کہ آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے ختم نہ کرسکے جس سے باہر کی قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ کئی عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن فکر و سوچ کے لحاظ سے اسلامی دنیا ترقی یافتہ دنیا سے خاصی پیچھے ہے۔
ایک زمانہ تھا جب چین آس پاس کے ایشیائی ممالک میں انقلاب لانے کی بات کرتا تھا۔ چھوٹی موٹی انقلابی تنظیموں کی حمایت بھی ہوتی تھی۔ پھر جب چین نے تاریخ کے ا وراق پلٹے اور معیشت پر توجہ دینا شروع کی تو بیرونی انقلاب کا کام سمیٹ دیا گیا۔ تمام توجہ معیشت پر دی جانے لگی۔ اسلامی دنیا کو چھوڑیے‘ اپنے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔ نعروں پر زور کم لگائیں‘ فضول کے جنون سے نکلیں اور فکر اس بات کی کریں کہ قرضے پر چلنے والی معیشت میں اصلاح کیسے لائی جائے۔ اب تو کوئی بہانے نہیں رہ گئے۔ مخالف آوازیں دب چکی ہیں۔ بظاہر ایک مضبوط حکومتی بندوبست اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ اگر ایسا حقیقت میں ہے تو پھر بڑے فیصلے لینے کی استطاعت ہونی چاہیے۔ بہترین دماغوں کو اکٹھاکریں تاکہ قومی ترجیحات کی کچھ ترتیب بن سکے۔ کیا امر مانع ہے کہ ٹیکس کا نظام وسیع نہیں کیا جاسکتا؟ جو لوگ باقاعدہ ٹیکس دیتے ہیں اُن پر مزید بوجھ ڈالنے کا تُک کیا ہے؟ غربت تو یہاں بہت ہے لیکن عیاشی بھی بہت ہے۔ اونچ نیچ کا فرق بڑھ رہا ہے۔ کشکول مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ چین یا امریکہ نے ہمیں ترقی یافتہ نہیں بنانا‘ یہ کام ہمارے اپنے کرنے کا ہے۔
جنون کے قافلوں کا حشر ہم نے دیکھ لیا۔ جنون اپنی جگہ قائم رہے لیکن اتنا تو دیکھا جائے کہ دنیا طاقت اور ترقی کے کن اصولوں پر چل رہی ہے۔
