کوئٹہ(این این آئی)امیر جمعیت علماء اسلام بلوچستان سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ مولانا اسجد محمود کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نہایت افسوسناک اور ریاستی اداروں کی سنگین غفلت کا مظہر ہے۔ ایک منتخب نمائندے، عالم دین اور سیاسی رہنما پر اس طرح کا حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے قیادت کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی اگر ذمہ داران کی سیکیورٹی پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی جائے تو یہ قومی سلامتی کے بنیادی تقاضوں سے انحراف کے مترادف ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اسی تسلسل میں چند روز قبل خضدار میں جمعیت علماء اسلام کے فعال قبائلی و سیاسی رہنما سردارزادہ میر کامران جتک کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، اور آج تک قاتل قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ یہ صرف ایک فرد کی جان کا نقصان نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک نظریے اور اس کے ماننے والوں کو خاموش کرنے کی سازش ہے۔ سردارزادہ کامران جتک کی شہادت ہمارے کارکنان کے خلاف جاری مسلسل ظلم و ستم کا تسلسل ہے، جس پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں۔مولانا عبدالواسع نے سینٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن، ان کے اہلِ خانہ اور جماعت کی دیگر قیادت پر کئی مرتبہ جان لیوا حملے ہو چکے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں خودکش حملے، راستے میں فائرنگ، اور کاروانوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے کارکنان کی لاشیں دفنا رہے ہیں اور اس کے باوجود حکومتی رویہ سرد مہری اور بے حسی سے بھرپور ہے۔ ہماری قیادت اور کارکنان کی جانوں کو لاحق خطرات کو نظرانداز کرنا ایک سنگین قومی کوتاہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ریاست سے کسی رعایت یا خاص مراعات کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ اپنی آئینی، جمہوری اور انسانی حق کی بات کر رہے ہیں۔ ہمیں زندہ رہنے، آزادانہ طور پر اپنی سیاسی اور مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے، اور اپنے رہنماؤں کے تحفظ کا وہی حق حاصل ہے جو کسی بھی شہری کو حاصل ہونا چاہیے۔ حکومت فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کرے، ان کے خلاف مقدمات قائم کرے اور عدالتی کارروائی کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام مرکزی اور صوبائی قیادت، بشمول مولانا فضل الرحمن اور مولانا اسجد محمود، کی سیکیورٹی کو فوری طور پر مؤثر، جدید اور مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری ادا نہیں کرتی، تو یہ محض ایک سیاسی جماعت کا نقصان نہیں بلکہ ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت وقت ہوش کے ناخن لے گی، اور اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نبھائے گی تاکہ ملک مزید کسی سانحے کا متحمل نہ ہو۔ ہم اپنی بات آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کر رہے ہیں، اور
