خالد مسعود خان
ان تیرہ برسوں نے مجھے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ اس بات کا اندازہ صرف اُن لوگوں کو ہو سکتا ہے جو مجھے جانتے ہیں۔ میں اب ایسا ہوں جیسا اُس کے ہوتے ہوئے ہونا چاہیے تھا مگر اس میں قصور میرا نہیں ہے۔ اُس نے دراصل مجھے تبدیل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں تھی۔ شروع شروع میں نہ سہی مگر بعد میں وہ یہ کر سکتی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ مجھے تبدیل کرنے کی کوشش کرتی اس نے خود کو تبدیل کر لیا۔ ایسے میں بھلا میں کیسے بدل سکتا تھا؟
خانیوال میں نکاح کے فوراً بعد میرے ساتھ آنے والے دوستوں نے ندیم گجر کی نگرانی میں دھڑا دھڑ فائرنگ شروع کر دی‘ بھلا زمانہ تھا کسی نے ہوائی فائرنگ پر کوئی کارروائی کرنا تو کجا نوٹس تک نہ لیا۔ اس دوران میرے پھوپھا مرحوم مسلسل میرا ہاتھ پکڑے بیٹھے رہے۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے اس کا ہاتھ اس لیے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ مجھے ڈر تھا اگر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تو یہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اسی کام میں لگ جائے گا۔ کھانے کے بعد رسم کے مطابق مجھے گھر کے اندر لے جایا گیا۔ بٹھانے کا اہتمام برآمدے میں تھا۔ مجھے اُس کے پہلو میں رکھی ہوئی کرسی پر بٹھایا گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں تھوڑا نروس تھا۔ اتنے میں فرخ نسیم انصاری مرحوم‘ جس کے والد میرے سسر مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے اور دونوں گھروں میں خانۂ واحدی جیسا تعلق تھا‘ پہلے ہم ایمرسن کالج اور بعد ازاں ہم بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں بھی ایم بی اے میں کلاس فیلو رہے‘ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اَبیّ بندوق کے شوقین! ہم نے تجھے ایک کلاشنکوف نکاح میں دے دی ہے۔ حالانکہ میں تھوڑا نروس تھا مگر اس جملے نے مجھے مزید نروس کرنے کے بجائے حوصلہ دیا۔ میں نے فرخ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: پپے (یہ اس کا محبت والا نام تھا) تمہیں علم ہے کہ میں بندوقوں کی مرمت کا کام بھی جانتا ہوں۔ میں نے یہ سرگوشی اس طرح کی کہ میرے پہلو میں بیٹھی ہوئی نئی نویلی دلہن نے بھی سُن لی۔ بعد میں وہ اکثر ہنس کر کہتی کہ مجھے اسی روز علم ہو گیا تھا کہ آپ کسی بھی جگہ پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بعد میں فرخ ملتا تو کہتا کہ ہم نے تو تجھے اچھی بھلی چلتی ہوئی کلاشنکوف دی تھی تُو نے خدا جانے اس کے کل پرزوں سے کیا چھیڑ چھاڑ کی ہے کہ اب صرف شو کیس میں رکھنے کے قابل رہ گئی ہے۔ لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔
گھر کی خانہ داری تو خیر سے اس کی ذمہ داری تھی لیکن اس نے بازار اور بچوں کی ساری ذمہ داریوں کے علاوہ میری ساری ذمہ داریاں بھی آہستہ آہستہ اس طرح نبھانا شروع کر دیں کہ میں تو بالکل ہی آزاد ہو کر رہ گیا۔ اُس اللہ کی بندی نے ساری عمر مجھ سے میری آمدنی کبھی نہ پوچھی مگر ایسا کبھی نہ ہوا کہ اس کی فرمائش میری جیب کی حیثیت سے بڑھ کر ہو۔ ویسے بھی اس کی خوشیاں اور خواہشات ایسی چھوٹی اور معمولی ہوتی تھیں کہ آج سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ شروع میں اسے اپنے ساتھ جنگلوں اور ویرانوں میں لے جاتے ہوئے تھوڑا تردد ہوا کہ خدا جانے یہ اسے انجوائے کرے گی یا مصیبت سمجھے گی مگر کالام کے قصبے سے نکلتے ہی دیودار کے درختوں والے اوشو پلین فاریسٹ‘ مٹلتان کے پھولوں بھرے تختوں اور دریائے اتروڑ کے کنارے پتھروں پر بیٹھ کر دریا میں پاؤں لٹکا کر اسے پانی اچھالتے ہوئے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ندی نالوں‘ پہاڑوں‘ جنگلوں‘ ویرانوں اور صحراؤں سے شاید وہ مجھ سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہے اور لطف اندوز ہوتی ہے۔ پھر ہم نے ایسے ایسے ویرانوں کی خاک چھانی کہ اب تو اس کی محض یادیں باقی رہ گئی ہیں۔
دو دن کی فرصت ملی اور کچھ نہ ملا تو چیچہ وطنی میں محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس میں جا کر ڈیرہ لگا لیا۔ سردیاں اور جنگل میری تو کمزوری تھیں ہی‘ اس نے ساتھ دے کر سب کچھ خوشگوار اور آسان بنا دیا۔ اتنا آسان کہ پھر مشکل کی تو عادت ہی نہ رہی۔ تیرہ سال ہونے کو آتے ہیں‘ سردیاں آتی ہیں‘ دل جنگل کی طرف سے آوازوں پر بے چین بھی ہوتا ہے مگر اب نہ ساتھ دینے والی ہے اور نہ اکیلے جانے کی ہمت۔ جانے سے پہلے اس نے ساری عادتیں ہی خراب کر دی تھیں۔
اللہ جانے اس کے دل میں کیا آتا تھا کہ کبھی کبھی ایسی بات کر دیتی کہ تب تو فضول لگتی تھی مگر اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید اسے آنے والے وقت کا مجھ سے زیادہ بہتر اندازہ تھا۔ ایک رات عیسن والا جنگل میں جلتی ہوئی لکڑیوں کے الاؤ کے پاس بچھی ہوئی کرسیوں پر میرے ساتھ کافی پیتے ہوئے کہنے لگی: بھلے آپ کتنے ہی مشکل پسند اور سخت جان ہیں لیکن آپ پر جو مشکل وقت آنے والا ہے مجھے یقین ہے کہ آپ سے یہ سب کچھ ہینڈل نہیں ہو گا۔ مجھے آنے والے دنوں اور آپ کی طبیعت کا اندازہ ہے اس لیے اس مشکل وقت کیلئے میں آپ کیلئے خود کوئی بندوبست کر جاؤں گی وگرنہ آپ سے تو یہ بھی نہیں ہو پائے گا۔ میں اس کا اشارہ سمجھ گیا مگر میں نے اس موضوع پر اس سے زیادہ بحث کرنے کے بجائے کہا کہ تمہیں میری صلاحیتوں کا اندازہ نہیں۔ میں کرنے پر آ جاؤں تو کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ اللہ تمہیں زندگی دے‘ تاہم اگر وقت پڑا تو میں یہ گھر چلا کر اور بچوں کو سنبھال کر دکھا دوں گا۔ وہ میری طرف دیکھنے کے بجائے الاؤ کے ساتھ پڑی ہوئی پتلی سی لکڑی اٹھا کر اردگرد پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے کوئلوں کو واپس الاؤ میں دھکیلتے ہوئے کہنے لگی: آپ کو کبھی میری باتیں یاد آئیں گی‘ تب آپ کو پچھتاوا بھی ہو گا اور ملال بھی۔ اس نے مجھ سے نظریں تو نہ ملائیں مگر میں اس کی آنکھوں میں جھلملاتے ستاروں کی طرف سے نظریں پھیر کر چٹختی لکڑیوں سے اڑنے والی چنگاریاں دیکھتے ہوئے کہا: اللہ مجھے کسی آزمائش سے بچائے‘ میں بڑا کمزور آدمی ہوں مگر وقت پڑا تو تمہارے سارے اندازے غلط ثابت کر دوں گا۔ مجھ سے نظریں بچا کر اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے ہنس کر کہنے لگی: جیسے میں آپ کو جانتی نہیں ہوں۔
اس کا خیال تھا میں بعض معاملات میں ناقابلِ اصلاح حد تک بگڑا ہوا ہوں۔ پچھلے تیرہ سالوں میں مَیں نے اُس کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ نہ اس کے اندازوں کو آزمانے اور انہیں غلط ثابت کرنا پڑتا اور نہ ہی مجھے خود کو بدلنے کی ضرورت ہی پیش آتی‘ میں جیسا تھا ویسا ہی رہتا۔ لیکن بھلا میں ویسا کیسے رہ سکتا تھا؟ جب سب کچھ بدل جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس بدل جانے پر کیا لکھوں؟ بس سید مبارک شاہ کی نظم پڑھیں: ” بدل گئے ہو‘‘
ذرا سے عرصے میں آہ کیسے بدل گئے ہو؍ تمہیں خبر ہے؍ وہ ہاتھ دھرتی نے کھا لیے ہیں؍ جنہوں نے اپنی ہتھیلیوں میں؍ ہماری خاطر فقط دعائیں بھری ہوئی تھیں؍ تمہیں پتا ہے؍ وہ ہونٹ مٹی میں جھڑ رہے ہیں؍ ہمارے چہروں پہ جن کے بوسے جڑے ہوئے ہیں؍ وہ آنکھیں اندھی لحد میں شاید بکھر چکی ہوں؍ جو شب گئے تک؍ ہماری راہوں میں اپنی کرنیں بکھیرتی تھیں؍ ہمارے نم کو نمود دے کر؍ زمیں کو اپنا وجود دے کر؍ کہاں گئے ہو؟؍ زمیں کے نم میں تمارے پیکر پگھل گئے ہیں؍ بدل گئے ہیں؍ بدل گئے ہو تو آؤ دیکھو؍ کہ ہم بھی کتنے بدل گئے ہیں؍ دعائیں مٹی میں گر پڑی ہیں؍ خدا سے کیسی شکایتیں ہوں؍ چراغ سانسوں نے پھونک ڈالا؍ ہوا سے کیسی شکایتیں ہوں؍ جو گھر میں ٹھہریں تو خوف آئے؍ کہ اپنے پیکر ہیں سائے سائے؍ سفر پہ نکلیں تو رکتے رکتے؍ کہ جیسے رخصت کرے گا کوئی؍ جو راہ میں تھکنے لگیں تو چپکے سے لوٹ آئیں؍ کہ کوئی واپس نہیں بلاتا؍ اداس ہوں تو کسے بتائیں؍ گلے سے کوئی نہیں لگاتا؍ جو آئینوں سے الجھ پڑیں تو؍ یہ کون پوچھے کہ کیا ہوا ہے؍ جو تم نے بدلا ہے روپ ایسا؍ تو ہم بھی ویسے نہیں رہے ہیں؍ نہیں رہے ہو؍ تو ہم بھی رہتے ہیں یوں کہ؍ جیسے نہیں رہے ہیں
Load/Hide Comments

