چین کی عالمی سطح پر اے آئی کے تعاون کے لیے نئی تنظیم کی تجویز

چین نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی بین الاقوامی تنظیم قائم کرنے کی تجویز دی ہے، تاکہ ٹیکنالوجی کا فائدہ تمام ممالک تک یکساں پہنچ سکے۔ ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق، چین کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی تنظیم قائم کرنا چاہتا ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر عالمی تعاون کو فروغ دے اور خبردار کیا کہ یہ ٹیکنالوجی چند ممالک اور کمپنیوں کا خصوصی کھیل بننے کے خطرے سے دوچار ہے۔ چینی وزیرِ اعظم لی چیانگ نے شنگھائی میں ہونے والی سالانہ عالمی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین، تیزی سے ترقی کرتی اے آئی ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کی عالمی کوششوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور اپنی پیش رفت دوسروں سے بانٹنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بدھ کے روز ایک اے آئی منصوبہ جاری کیا، جس کا مقصد اتحادی ممالک کو امریکی اے آئی کی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے تاکہ چین پر ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت برقرار رکھی جا سکے۔ اگرچہ لی چیانگ نے امریکا کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ واشنگٹن کی جانب سے چین کی اے آئی ترقی کو روکنے کی کوششوں کا حوالہ دے رہے تھے۔ لی نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ اے آئی کو سب کے لیے کھلا رکھا جائے اور تمام ممالک اور کمپنیاں اس کے استعمال کا مساوی حق رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ دوسرے ممالک، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ یعنی ترقی پذیر یا کم آمدنی والے ممالک کے ساتھ، اپنے ترقیاتی تجربات اور مصنوعات بانٹنے کے لیے تیار ہے۔ لی نے کہا کہ اے آئی سے جڑے خطرات کو کیسے کنٹرول کیا جائے، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اے آئی چپس کی محدود فراہمی اور مہارتوں کے تبادلے پر پابندیاں، اہم رکاوٹیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر، عالمی سطح پر اے آئی کی حکمرانی اب بھی بکھری ہوئی ہے، خاص طور پر ریگولیٹری تصورات اور ادارہ جاتی اصولوں کے حوالے سے ممالک میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں ہم آہنگی کو مضبوط کرتے ہوئے، ایک عالمی اے آئی حکمرانی کا فریم ورک جلد از جلد تشکیل دینا چاہیے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تین روزہ شنگھائی کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب چین اور امریکا کے درمیان ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلہ شدت اختیار کر چکا ہے اور اے آئی اس مقابلے کا اہم میدان بن چکا ہے۔ واشنگٹن نے چین کو جدید ترین ٹیکنالوجی، بشمول نیوڈیا جیسی کمپنیوں کی اعلیٰ درجے کی اے آئی چپس اور چپ سازی کے آلات کی برآمدات پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی چین کی عسکری صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ ان پابندیوں کے باوجود، چین نے اے آئی کے میدان میں ایسی پیش رفت جاری رکھی ہے جو امریکی حکام کی گہری نظر میں ہے۔ ایک گول میز اجلاس میں، جس میں روس، جنوبی افریقا، قطر، جنوبی کوریا اور جرمنی سمیت 30 سے زائد ممالک کے نمائندے شریک تھے، چینی نائب وزیر خارجہ ما ژاؤشو نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ یہ مجوزہ تنظیم اے آئی میں عملی تعاون کو فروغ دے اور وہ اس تنظیم کا صدر دفتر شنگھائی میں بنانے پر غور کر رہا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے اے آئی کی عالمی حکمرانی کے لیے ایک عملی منصوبہ آن لائن جاری کیا ہے، جس میں حکومتوں، بین الاقوامی اداروں، کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کو باہمی تعاون، سرحد پار اوپن سورس کمیونٹی کے قیام اور بین الاقوامی تبادلوں کو فروغ دینے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ حکومتی سرپرستی میں ہونے والی اے آئی کانفرنس عام طور پر بڑی ٹیک کمپنیوں، سرکاری اہلکاروں، محققین اور سرمایہ کاروں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ ہنٹن بھی مقررین میں شامل ہفتے کے روز خطاب کرنے والوں میں فرانسیسی صدر کے خصوصی اے آئی ایلچی این بویورو، کمپیوٹر سائنس دان جیفری ہنٹن (جو گوڈ فادر آف اے آئی کے نام سے جانے جاتے ہیں) اور گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمڈ شامل تھے۔ تاہم، ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک جو ماضی میں اکثر افتتاحی تقریب میں بذات خود یا ویڈیو کے ذریعے شرکت کرتے رہے ہیں، اس سال خطاب کے لیے موجود نہیں تھے۔ منتظمین کے مطابق اس سال 800 سے زائد کمپنیاں کانفرنس میں شریک ہیں، جو 3 ہزار سے زیادہ جدید مصنوعات، 40 بڑے لینگویج ماڈلز، 50 اے آئی سے چلنے والی ڈیوائسز اور 60 ذہین روبوٹس پیش کر رہی ہیں۔ کانفرنس میں ایسی نمائشیں بھی شامل ہیں جن میں کمپنیاں اپنی تازہ ترین جدتیں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں نہ صرف چینی کمپنیاں، جیسے ہواوے، علی بابا اور یونٹری (جو ہیومنوئیڈ روبوٹس تیار کرتی ہے) شامل ہیں، بلکہ مغربی ٹیک جائنٹس جیسے ٹیسلا، الفابیٹ اور ایمیزون بھی شرکت کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں