بنگلہ دیش کی عدالت نے پیر کو سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو ’انسانیت کے خلاف‘ جرائم کے مقدمے میں قصور وار قرار دے موت کی سزا سنا دی ہے۔
روئٹرز کے مطابق کئی مہینوں تک چلنے والے مقدمے کا فیصلہ بالآخر سنا دیا گیا جس میں شیخ حسینہ کو گذشتہ سال طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج پر کریک ڈاؤن کے احکامات دینے کا مجرم قرار دیا گیا۔
تاہم شیخ حسینہ نے اس کریک ڈاؤن پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے جو گذشتہ سال سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کے دوران ہوا تھا اور جس کے دوران متعدد لوگ مارے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سابق وزیر اعظم پر جرم ثابت ہونے پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والی سماعت میں جج غلام مرتضیٰ نے ڈھاکہ کی بھری عدالت میں پڑھ کر سنایا کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام تقاضے پورے ہو چکے ہیں۔‘
مقدمے کے دوران پراسیکیوٹرز نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ حسینہ نے جولائی اور اگست 2024 میں طلبہ کی قیادت میں احتجاج کو دبانے کے لیے مہلک طاقت استعمال کرنے کے براہ راست احکامات دیے تھے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 15 جولائی سے پانچ اگست 2024 کے دوران احتجاج میں تقریباً 1,400 افراد کی اموات اور ہزاروں زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔
’فیصلے پر حیران نہیں ہوں‘
دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے انٹرویو میں شیخ حسینہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ گذشتہ سال مرنے والے مظاہرین کے اہل خانہ سے معافی مانگیں گی، تو انہوں نے کہا کہ وہ ’ایک قوم کے طور پر ہم نے جو ہر بچہ، بھائی، کزن اور دوست کھویا اس پر رنجیدہ ہیں۔‘ لیکن وہ اس الزام کو رد کرتی ہیں کہ انہوں نے پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔
اس مقدمے کو انہوں نے’سیاسی انتقام پر مبنی جعلی مقدمہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا، آئی سی ٹی ایک جعلی عدالت ہے جس کی صدارت ایک غیر منتخب حکومت کر رہی ہے جس میں میرے سیاسی مخالف شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے مخالف مجھے ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا: اپنے خاندان کی تاریخ کی وجہ سے، میرے لیے اپنے ملک میں سیاسی قتل و غارت کی تاریخ سے زیادہ آگاہ کوئی نہیں ہو سکتا، اور آئی سی ٹی کا یہ اقدام اسی بد صورت روایت کا حصہ ہے۔‘
حسینہ کی نمائندگی ایک ریاستی مقرر کردہ وکیل نے کی جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی بریت کی درخواست کی۔
78 سالہ شیخ حسینہ نے عدالت کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہوئے انڈیا سے واپس آ کر اپنے مقدمے میں پیش ہونے سے انکار کیا تھا۔
گذشتہ سال ایک بڑی احتجاجی تحریک اور مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ کا 15 سال دور حکمرانی ختم ہوا اور وہ پڑوسی ملک انڈیا چلی گئی تھی اور اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
اس موقع پر دارالحکومت ڈھاکہ اور ملک کے کئی دوسرے حصوں میں نیم فوجی دستے اور پولیس تعینات کی گئی تھی کیونکہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے پیر کو ملک گیر احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے۔
ایک خصوصی ٹریبونل میں استغاثہ نے شیخ حسینہ کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ نے ایک آڈیوں پیغام میں اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ فیصلے کے بارے میں ’گھبراہٹ‘ کا شکار نہ ہوں۔
حسینہ واجد 1981 سے اپنے دہائیوں کے طویل سیاسی کیریئر کے دوران کم از کم 19 قاتلانہ حملوں میں بچ چکی ہیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب مقامی میڈیا نے اتوار کو ڈھاکہ میں دیسی ساختہ بموں کے نئے دھماکوں کی اطلاع دی تھی، جس میں ایک بم دھماکا ایک مشیر کے گھر کے سامنے بھی ہوا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکام نے اتوار کو آرمی ہیڈکوارٹرز کو لکھے گئے خط میں فیصلے سے قبل ٹریبونل کے احاطے کے ارد گرد فوجیوں کی تعیناتی کا کہا تھا۔
استغاثہ نے کہا کہ ٹریبونل کے فیصلے کو بنگلہ دیش کے سرکاری ٹیلی ویژن اور دیگر ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا جا سکتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حسینہ واجد کو گزشتہ سال پانچ اگست کو بے دخل کر دیا گیا تھا اور وہ انڈیا چلی گئی تھیں۔
بنگلہ دیشی نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس اس وقت بطور عبوری حکومت کے سربراہ کے کام کر رہے ہیں۔
شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی دونوں نے خصوصی ٹربیونل کو ’کینگرو کورٹ‘ قرار دیا ہے اور ریاست کی طرف سے ان کی نمائندگی کے لیے وکیل کی تقرری کی مذمت کی ہے۔
محمد یونس کہہ چکے ہیں کہ ان کی عبوری حکومت آئندہ انتخابات فروری 2026 میں کرائے گی اور حسینہ واجد کی پارٹی کو انتخاب لڑنے کا موقع نہیں ملے گا۔
جرم ثابت ہونے پر شیخ حسینہ کو ممکنہ موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حسینہ نے اقتدار قائم رکھنے کی کوشش کے دوران کریک ڈاؤن میں بنگلہ دیش میں 1,400 تک افراد مارے گئے، یہ اموات ان کے خلاف قائم مقدمے کا مرکز تھیں۔

