کچھ لوگ فنکار ہوتے ہیں اورکچھ مکمل فن، فلم اسٹار رنگیلا صرف فنکار نہ تھے وہ قہقہوں کا استعارہ تھے۔
اپنے طویل کیریئر کے دوران لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے فلم سٹار رنگیلا کو مداحوں سے بچھڑے 20 سال گزر گئے۔
یکم جنوری 1937 میں کرم ایجنسی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد سعید خان عرف رنگیلا نے فن مزاح کو فلموں کا لازمی جز بنادیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسکرین پر سنجیدگی کے سائے گہرے تھے لیکن رنگیلا نے اس سائے کو روشنی میں بدلا، رنگوں سے اجالا کیا اور مزاح کی روح کو زندگی بخشی۔
ایک معمولی پینٹر کی حیثیت سے فلموں کے پوسٹر بناتے بناتے، قسمت کا ہاتھ انھیں پوسٹر سے اٹھا کر پردہ سکرین پر لے آیا اور پھر وہ خود فلم بن گئے۔
چار دہائیوں تک اپنی منفرد کامیڈی سے محظوظ کرنے والے رنگیلا نے ان گنت کردار نبھائے، ان کی اداکاری صرف چہرے کی جنبش نہ تھی، پورا بدن بولتا تھا، آنکھیں مکالمے کہتی تھیں، ہاتھوں کی حرکات سے مزاح جنم لیتا تھا اور چہرے پر بننے والی ہر شکل، ایک طنزیہ کہانی کہتی تھی۔
رنگیلا نے اپنے وقت کے نامور فنکاروں کے ساتھ کام کیا تاہم شہنشاہ ظرافت منور ظریف کے ساتھ ان کی جوڑی کا چرچہ خوب رہا۔ اپنے فنی سفر کے دوران رنگیلا نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا۔
رنگیلا نے بطور ڈائریکٹر، رائٹر اور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے دیا اور طوفان، کبڑا عاشق، رنگیلا، مولا جٹ، عورت راج، بازار حسن اور میڈم باوری جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا۔
ایک کامیاب اداکار اور شاندار ہدایتکار رنگیلا نے جب نغمے گائے تو ’’گا میرے منوا، گاتا جا رے ، سننے والوں نے صرف گانا نہیں سنا بلکہ اس میں ایک ٹوٹے ہوئے دل کی صدائیں بھی سنیں۔
اداکار رنگیلا کو فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد اعلی اعزازات سے نوازا گیا۔
وہ 68 برس کی عمر میں 24 مئی 2005ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔