افغانستان ثور انقلاب کی ناکامی کے وجوہات

اداریہ

افغانستان میں سوویت یونین کی مدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو عام طور پر رجعتی قوتیں “افغانستان میں سوویت جنگ” کہا جاتا ہے، نہ کہ “ٹور انقلاب”۔

پی ڈی پی اے (خلق اور پرچم گروپ) کی حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ ان کی اصلاحات، جیسے زمینی اصلاحات اور سماجی تبدیلیاں، روایتی افغان معاشرے کے لیے اجنبی تھیں اور انہیں مذہبی اور قدامت پسند حلقوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
افغانستان کے مضبوط مذہبی اور قبائلی ڈھانچے نے انقلابی حکومت کو غیر اسلامی سمجھا۔ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا گیا اور مجاہدین کی شکل میں ایک منظم مزاحمت کھڑی ہو گئی۔
1979ء میں سوویت فوجوں کی آمد نے صورتحال کو اور بگاڑ دیا۔ اسے ایک غیر ملکی قوت کے طور پر دیکھا گیا جیسےایک غیر مقبول حکومت کو مسلط کیا گیا ہو اس نے مزاحمت کو اور ہوا دی اور اسے ایک “جہاد” میں بدل دیا۔
امریکہ، پاکستان، سعودی عرب جیسے ممالک نے مجاہدین کو وسیع پیمانے پر مالیاتی، اسلحہ اور فوجی تربیت کی مدد فراہم کی۔ یہ مدد سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کو پروکسی جنگ (Proxy War) میں بدل دیا۔
پی ڈی پی اے کے اندر “خلق” اور “پرچم” گروپوں میں شدید اختلافات اور آپسی کشمکش تھی، جس نے حکومت کی استحکام کو مزید کمزور کر دیا۔
1980 کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین میں “پیریسٹروئیکا” (اصلاحات) اور “گلاسنوسٹ” (کھلے پن) کی پالیسیوں کے تحت، ماسکو نے افغانستان سے اپنی فوجی وابستگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد افغان حکومت کو مکمل حمایت حاصل نہ رہی۔
افغانستان کا پہاڑی علاقہ گوریلا جنگ کے لیے انتہائی موزوں تھا۔ مرکز سے دور قبائلی معاشرہ کسی بھی بیرونی طاقت کے لیے کنٹرول حاصل کرنا انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔

ان تمام عوامل کے مجموعے نے سوویت یونین کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف جنگ میں رد انقلاب کی کامیابی کو یقینی بنایا، جس کے نتیجے میں 1992ء میں انقلابی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں