اداریہ
پاکستان بنیادی طور پر چار بڑی قوموں بلوچ، پنجابی، سندھی اور پشتون کے تاریخی و ثقافتی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک کثیر القومیتی ریاست ہے، جہاں یہ قومیں اپنی منفرد شناخت، زبان، ثقافت اور تاریخ رکھنے کے باوجود ایک اجتماعی قومی تشخص کا حصہ ہیں۔ ان کے علاوہ سرائیکی، ہزارہ، بلتی، شینا جیسے اہم لسانی و ثقافتی گروہ بھی اس کثیرالثقافتی تانے بانے کو مزید رنگین و متنوع بناتے ہیں۔
پنجاب یہ پنجابی قوم کی تاریخی سرزمین ہے، جہاں پنجابی زبان اور ثقافت کی گہری تاریخی جڑیں ہیں۔
سندھ سندھی قوم کی قدیم تہذیب و تمدن کی آماجگاہ ہے، جس کی شناخت سندھی زبان، ثقافت اور دریائے سندھ کی وادی سے وابستہ ہے۔
خیبر پختونخوا یہ پشتون قوم کی اکثریتی سرزمین ہے، جہاں پشتو زبان اور پختونولی کے روایتی اصول معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
بلوچستان بلوچ قوم کی وسیع و عریض تاریخی سرزمین ہے، جہاں بلوچی اور براہوی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ایک مخصوص قبائلی ثقافت پائی جاتی ہے۔
تمام قومیتوں کے حقوق کی برابری کا تصور محض ایک نظری نعرہ نہیں، بلکہ ایک عملی تقاضا ہے،
صوبائی خودمختاری: 1973ء کے آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ان کے وسائل پر اختیار دیا گیا ہے۔ ملکی سالمیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اس پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مرکزی حکومت کی تمام اہم فیصلہ سازی کے اداروں میں تمام قومیتوں کی مناسب اور منصفانہ نمائندگی ہونی چاہیے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 28 کے تحت ہر قوم کو اپنی زبان سیکھنے، پڑھانے اور فروغ دینے کا حق حاصل ہے۔ اس حق کو عملی شکل دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
قومی وسائل (پانی، معدنیات، مالیاتی وسائل) کی تقسیم قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کے ذریعے آبادی، پسماندگی اور دیگر معروضی معیارات کی بنیاد پر مکمل انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے۔
ترقیاتی بجٹ اور منصوبوں میں تمام علاقوں کو یکساں ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جانی چاہیے تاکہ خطائی عدم توازن اور پسماندگی کا خاتمہ ہو سکے۔
ہر قوم کی ثقافت، زبان، ادب، موسیقی اور روایات کو محفوظ کرنے اور فروغ دینے کے لیے ریاستی سرپرستی اور ادارہ جاتی اقدامات ضروری ہیں۔
ایسی جامع پالیسی جو تمام قومیتوں کو مطمئن رکھ سکے۔ مرکزی حکومت کو ہر قوم کی الگ شناخت، تاریخ اور ثقافت کا مکمل احترام کرنا ہوگا اور انہیں پاکستان کی اجتماعی شناخت کا لازمی اور قابلِ فخر حصہ تسلیم کرنا ہوگا۔قومی پالیسیوں کے تشکیل دے process میں تمام صوبوں اور قومیتوں کے حقیقی نمائندوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔ مسائل کا حل جبر کی بجائے مکالمے، رواداری اور بات چیت سے نکالا جائے۔
کسی بھی قسم کے تعصب یا امتیاز کے بغیر ہر شہری کو انصاف اور ترقی کے مواقع تک یکساں رسائی یقینی بنائی جائے۔
اتحاد میں تنوع” کے اصول کو اپنایا جائے۔ مختلف ثقافتوں کو دھاگے میں پرویا جائے، انہیں ختم یا نظرانداز کر کے نہیں۔

