ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

خالد مسعود خان
عشروں قبل جب اس ملک میں بڑا آدمی ہونے کا معیار تبدیل ہونا شروع ہوا تو حقیقی بڑے آدمی گمنام ہونا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ لوگ بھی انہیں بھولنا شروع ہو گئے۔ باقی لوگوں کا کیا کہوں میں خود کو بھی اس سارے المیے میں قصور وار سمجھتا ہوں۔ کتابیں متروک ہوئیں تو ان کے خالق بھی گمنامی کی گرد میں چھپ گئے۔ جب کتاب ہی معاشرے میں اپنی قدرو منزلت کھو بیٹھی تو بھلا مصنف کہاں تک ہمارے دل و دماغ میں اپنی جگہ بنائے رکھتا۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ جہاں کشتیاں چلی گئیں ملاح بھی وہیں اپنا ٹھکانا کر گئے۔ سو کتابوں کی ناقدری نے بڑے بڑے مقبول مصنفین کی شہرت اور مقبولیت کو گہنا دیا۔
قریب چالیس برس پرانی بات ہے‘ میں برادرِ عزیز طارق حسن کے ہاں راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ٹھہرا ہوا تھا۔ گھر سے پیدل نکلا تو کیا دیکھتا ہوں ایک گھر پر ‘جبار توقیر‘ کے نام تختی لگی ہوئی ہے۔ میں گھر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ لڑکپن میں فیروز سنز کی چھپی ہوئی کتاب ”لنگڑا فرشتہ‘‘ اور اس کا مصنف ذہن میں آ گیا۔ اس کتاب کے دکھی انجام نے ایک نو عمر لڑکے کو کئی دن تک دکھی رکھا۔ کتاب کا نقش ایسا ذہن پر چھایا کہ جبار توقیر کا نام بھی یادوں کی پٹاری میں محفوظ ہو گیا۔ کتاب پڑھے ہوئے بارہ پندرہ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا اور اندازہ نہ تھا کہ مصنف اب بھی اس گھر کا مکین ہے یا اپنی اگلی منزل کو جائے قیام بنا چکا ہے۔ کیا خبر گھنٹی دوں تو اندر سے خادم آکر بتائے کہ آپ بہت تاخیر سے آئے ہیں‘ اب صرف صاحبِ خانہ کے نام کی تختی باقی رہ گئی ہے۔ سو گھنٹی کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ رک گیا۔ کئی منٹ تک اس پتھر کی تختی کو دیکھا اور پھر اپنی راہ لی۔ بعد میں ملال ہوا۔ ایک بار پھر اس گھر کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر خدا جانے وہ گھر کہیں چلا گیا یا میں ہی بھٹک گیا مگر کسک آج تک دل میں موجود ہے۔
اسی طرح ایک روز ملک احسان الرحمان کے ساتھ بھبھرانہ محلہ جھنگ سے سیٹلائٹ ٹاؤن کی طرف جاتے ہوئے ایک گھر کے سامنے سے گزرے تو اس پر غلام بھیک نیرنگ کی تختی دکھائی دی۔ تب ان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ساڑھے تین عشرے گزر چکے تھے۔ قانون دان‘ سیاستدان اور شاعر غلام بھیک نیرنگ1936ء سے 1942ء تک ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے مگر میری ان سے واقفیت ان کی وفات کے تیس پینتیس سال بعد ان کے مجموعۂ کلام ” کلامِ نیرنگ‘‘ کے توسط سے ہوئی۔ کئی سال بعد دوبارہ ادھر سے گزر ہوا تو وہاں پر اس قدیم طرز کے عالیشان گھر کی جگہ پر پلازہ بن رہا تھا۔ گھر کی تختی اتری تو انبالے سے ہجرت کرکے جھنگ آنے والے قانون دان‘ سیاستدان اور شاعر کی اس شہر میں موجود آخری نشانی بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ مگر شاید یہی زندگی کی حقیقت ہے کہ پرانے لوگ جاتے رہتے ہیں اور نشانیاں مٹتی رہتی ہیں لیکن المیہ تو یہ ہے کہ لوگ موجود ہوتے ہیں اور ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ ایسے ایسے لوگ اور ایسے ایسے نام کہ بندہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان لوگوں کے نام ہمارے سامنے ہی طاقِ نسیاں کی نذر ہو جائیں گے۔
ابن صفی‘ مظہر کلیم ایم اے اور اشتیاق احمد۔ کیا زمانہ تھا کہ لڑکے بالے اور بچے ان کے نام کے شیدا اور ان کی کتابوں کے عاشق ہوا کرتے تھے۔ ملتان میں حرم گیٹ کے باہر ‘ بوہڑ گیٹ سے نکلیں تو بائیں طرف سڑک کے موڑ پر اور گھنٹہ گھر کی مشرقی سمت والے دروازے کے ساتھ بک سٹال ہوا کرتے تھے۔ ان پر اخبارات اور رسالوں کے علاوہ ناول بھی ملا کرتے تھے۔ ہمارا زیادہ زور حرم گیٹ والے بک سٹال پر چلتا تھا جس کے مالک ہمارے محلہ دار تھے اور کبھی چار آٹھ آنے کم پڑ جاتے تو وہ بخوشی ادھار کر لیتے تھے۔ اس بک سٹال پر ہمہ وقت ڈوری کے ساتھ گتے کے اطلاعی نوٹ لٹکتے رہتے۔ کبھی ان پر لکھا ہوتا کہ سب رنگ ڈائجسٹ کا نیا شمارہ آ گیا ہے‘ کبھی جاسوسی اور کبھی سسپنس ڈائجسٹ کی اطلاع ہوتی۔ ہر مہینے ابنِ صفی کے نئے ناول کی اطلاع مع نام لٹکی ہوتی۔ عمران سیریز اور کرنل فریدی کے کرداروں پر مبنی یہ جاسوسی کتابیں ابن صفی کی تحریر کردہ ہوتی تھیں۔ بعد میں نجمہ صفی نے بھی ابن صفی کی سیریز کے جاسوسی ناول لکھنے شروع کردیے۔ ملتان سے مظہر کلیم بھی اسی میدان کے شہسوار ٹھہرے۔
یہ بڑا شاندار دور تھا۔ شہر میں درجن بھر کے قریب بک سٹال اور پچاس کے لگ بھگ آنہ لائبریریاں تھیں۔ پانچ سو یا ہزار کتابوں پر مشتمل کتاب کا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ اس کے بعد بچوں کے ادب میں اشتیاق احمد نے اپنا سکہ جمایا۔ اشتیاق احمد نے انسپکٹر جمشید‘ انسپکٹر کامران مرزا کے کردار تخلیق کرتے ہوئے بچوں کیلئے 800سے زائد ناول تحریر کیے۔ پانی پت سے ہجرت کرکے جھنگ میں ڈیرے لگانے والے اشتیاق احمد نے بچوں کی کہانیاں اور ناول لکھتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا کہ ان کی تحریریں صرف بچوں کی وقت گزاری کا باعث نہ بنیں بلکہ ان کی اخلاقی تربیت بھی ان کے ناولوں اور کہانیوں کا لازمی جزو تھا۔ کیسے جذبے والے لوگ تھے جو ہمارے درمیان پورے آب و تاب سے چمکتے رہے اور پھر نہایت خاموشی کے ساتھ رخصت ہو گئے کہ ان کا زمانہ ان کے ہوتے ہوئے گزر گیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مظہر کلیم حرم دروازے اور پاک دروازے کی درمیانی النگ پر ایک دکان کے اندر بیٹھ کر اپنے جاسوسی ناول تخلیق کیا کرتے تھے۔ چند سال قبل ہم نے ملتان ٹی ہاؤس کے پلیٹ فارم پر ان کی ادبی خدمات کے اعتراف اور پذیرائی کے سلسلے میں ایک شام منائی۔ تب مظہر کلیم علالت کے باوجود اس تقریب میں آئے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جب یہ کہا کہ یہ ان کی پچاس سالہ ادبی زندگی میں پہلی تقریب ہے جو ان کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے‘ تو یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے اس حسرت بھرے جملے نے نہ صرف میری بلکہ بہت سے سامعین کی آنکھیں چھلکا دیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اُس رحیم نے ہم ملتان والوں کو اس احساسِ جرم اور ملال سے بچا لیا‘ جو اس تقریب کے نہ کرنے کے باعث ہمیں تا عمر کچوکے مارتا۔ تھوڑے عرصے بعد محترم شاہد صدیقی ملتان آئے تو انہوں نے مظہر کلیم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ فریکچر کی وجہ سے چلنے پھرنے سے عاری ہیں اور ان سے ملاقات فی الحال ممکن نہیں‘ چند روز بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اُسی دور میں سب رنگ ڈائجسٹ نے عام سطحی قسم کی کہانیوں سے ہٹ کر اردو ادب سے لے کر عالمی ادب تک ایسی شاندار کشید کردہ کہانیوں کی لت لگائی کہ آنکھوں کے خراب حالات اور پڑھنے میں جزوی معذوری بھی اس عاجز کا کتاب سے رشتہ ختم کروانے میں ناکام رہی۔ ایک دوست کہنے لگا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم میں ابن صفی‘ مظہر کلیم اور اشتیاق احمد نہیں ہیں تو بھلا وہ زمانہ کیسے رہتا؟ میں نے کہا کہ ابن صفی تو اس لحاظ سے خوش قسمت ٹھہرے اور برا وقت آنے سے پہلے 1980ء میں رخصت ہو گئے مگر نسیم حجازی1995ء میں جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا زمانہ ان کے ہوتے ہوئے گزر گیا تھا۔ یہی حال 2015ء میں وفات پانے والے اشتیاق احمد اور 2018ء میں اپنی زندگی کا سفر مکمل کرنے والے مظہر کلیم کے ساتھ ہوا کہ وہ موجود تھے اور کتاب کا قاری نہ تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ان لکھاریوں کے قاری ان کی زندگی میں ان کو داغِ مفارقت نہ دیتے تو شاید ان کی زندگی کے لمحات کچھ اور بڑھ جاتے۔
شوکت واسطی کا شعر جسے یار لوگوں نے کسی محسن سے وابستہ کر رکھا ہے‘ اس ساری صورتحال کی دو سطروں میں منظر کشی کرتا ہے:
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا؍ ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں