زرخان بلوچ
لیاری کا نام جب زبان پر آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کراچی کی روح نے خود کو ایک ہی محلے کی گلیوں میں سمیٹ لیا ہو۔ یہاں کی ہوا میں سمندر کی نمکین مہک بھی ہے اور صدیوں کے سفر کی گرد بھی۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسان اپنی پوری آنکھیں کھول کر دنیا کو دیکھتا ہےلیکن خودغرض دنیا اس کی سچائی سے اکثر نظریں چرا لیتی ہے۔
بھارتی فلم دھریندر کا حالیہ ٹریلر بھی اسی نظریں چرائے ہوئے بیانیے کا حصہ ہے، یہ ٹریلر لیاری کو ایک ایسی تصویر میں قید کرتا ہوا دکھاٸی دیتا ہے کہ جس میں سایہ تو ہے، مگر سورج نہیں،شور تو ہے مگر دھڑکن نہیں،اندھیرا تو ہے مگر اس روشنی کا کوئی ذکر نہیں جس نے اس بستی کو ہمیشہ جگمگایا ہے۔
اگر تاریخی حقاٸق کے تناظر میں بات کی جاٸے تو لیاری کی کہانی اس سے کہیں زیادہ وسیع، گہری اور روشن ہے۔ لیاری اس خطے کا ایک قدیم شہری ورثہ ہے،ایک ایسی بستی جہاں گلیاں محض راستے نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات ہیں جہاں شام ڈھلے چائے کے ہوٹل فلسفہ گھولتے ہیں،جہاں شام۔کی کرنیں پھوٹتے ہی بچے اور نوجوان گلیوں میں فٹبال کو ستاروں کی طرح اچھالتے ہوٸے نظر أتے ہیں،جہاں موسیقی دراصل دل کی دھڑکن ہے،جہاں امن،محبت اور دوستی ایسی عبادتیں ہیں جن کا کوئی رقیب نہیں۔یہاں ہر چہرہ ایک کہانی ہے اور ہر کہانی ایک عہد کی طرح روشن دکھاٸی دیتا ہے۔
اگر کراچی ایک تاریخ ہے تو لیاری اس تاریخ کا سب سے مضبوط اور بے خوف باب ہے۔
یہاں کی سیاست پتھروں پر نہیں دلوں پر لکھی گئی ہے۔جب پورے ملک پر ون یونٹ کی گہری چادر مسلط کی گئی تو
لیاری نے اسے خاموشی سے قبول نہ کیا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے سیاسی کارکنوں، طلبا تنظیموں، مزدور یونینوں
اور نوجوانوں نے اس ناانصافی کے خلاف اپنی پرزور آواز بلند کی۔ایک ایسی آواز جو محض جغرافیہ کا دفاع نہ تھی،بلکہ شناخت، وقار اور آزادی کا اعلان تھی۔لیاری پاکستان میں ترقی پسند فکر کی ایک ایسی بستی رہی ہے کہ جہاں سوچیں بھی آزاد اور خواب بھی آزاد پیدا ہوئے۔یہاں مساوات کا نعرہ فیشن نہیں بلکہ ضرورت تھا۔ یہاں امن کا پیغام محض شاعری نہیں بلکہ حقیقت تھا۔یہاں کے سیاسی کارکن ترقی پسند سیاست کے وہ چراغ تھے جنہوں نے پورے شہر میں روشنی بانٹی چاہے اس کے عوض انہیں اندھیرے میں جلا دیا گیا ہو۔ 1983 کی ایم آر ڈی کی تحریک میں لیاری صرف شریک نہ تھا بلکہ قیادت کرتا تھا۔یہاں کے لوگوں نے آمریت کے سامنےاپنے جسموں کو دیوار بناتے ہوٸے اپنی آوازوں کو نعرہ
اور قربانیوں کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔
اس تاریخی حقیقت کو شاید ہی کوٸی ذی شعور انسان جھٹلاسکے کہ وقت نے بدلنا ہے اور لیاری نے یہ سچائی نہ صرف قبول کی،بلکہ اسے اپنے ہاتھوں سے تراشا بھی۔یہاں فٹبال محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک زبان،ایک عقیدہ اورایک امید ہے۔ أج لیاری کے نوجوان فٹبالرز ، قطر، سنگاپور اور یورپ تک اپنی پہچان رقم کر رہے ہیں۔باکسنگ، سائیکلنگ اور مارشل آرٹس میں لیاری برسوں سے اس ملک کے لٸے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی أرہی ہے۔
أج لیاری کے نوجوان گاتے ہیں، لکھتے ہیں،کیمرے کے ذریعے دنیا کو نئی نظر دیتے ہیں، رنگوں کے ذریعےدیواروں پر خواب سجاتے ہیں،شاعری،أرٹ، موسیقی اور فلم کے ذریعے دلوں میں امید جگاتے ہیں۔یہ فن،یہ رنگ اور جذبات یہ سب لیاری کا وہ دلکش حسن ہے جسے یہاں کی میڈیا اور راٸٹرز اکثر بھول جاتے ہیں۔لیاری محض ایک ثقافت نہیں بلکہ علم و ادب کی رفتار بھی ہے۔أج لیاری کے تعلیم یافتہ اور باہمت نوجوانوں کی قیادت میں سینکڑوں اکیڈمیز، یوتھ پروجیکٹس، اور سماجی تنظیمیں ہر روز درجنوں نئی کہانیاں جنم دے رہی ہیں۔یہ وہ لیاری ہےجس نے ماضی کی خاک سےاپنے مستقبل کو سونا بنانا سیکھ لیا ہے۔
بھارتی فلم دھریندر کے ٹریلر میں لیاری کی تصویرایک ایسے آئینے جیسی ہے کہ جس میں سچائی نصف رہ جاتی ہے۔لیکن لیاری کی حقیقت نصف نہیں بلکہ وسیع اور روشن ہے۔کیمرے کی آنکھ صرف وہ دیکھتی ہے جو اس کے سامنے نظر أتا ہے،مگر لیاری کو سمجھنے کے لیےآنکھ نہیں دل چاہیے۔وہ دل جو یہاں کی کہانیوں، محبتوں، جدوجہد اور خوابوں کو سن سکے۔لیاری کا سفر طویل و مشکل سہی مگر بہت خوبصورت ہے۔ یہ محض انسانوں کی ایک أبادی نہیں بلکہ ایک مزاحمت ہے،یہ محض بستی نہیں بلکہ ایک وسیع تاریخ ہے اورکسی فلم کے چند مناظراس تاریخی علاقے کی حقیقت بدل نہیں سکتے۔کیونکہ لیاری کی شناخت کسی فلم کی محتاج نہیں بلکہ یہ شناخت خود لیاری کے لوگ بناتے ہیں۔

