تحریر برکت حسین شاد
اوول آفس میں ملاقات کے دوران ایک نامہ نگار
نے ممدانی سے نہایت براہِ راست سوال کیا
آپ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کو فاشسٹ کہتے تھے۔ کیا آپ اب بھی انہیں فاشسٹ سمجھتے ہیں؟
فضا میں ایک لمحے کو سکوت طاری ہو گیا۔ ممدانی نے جواب دینے کے لیے بات کا آغاز ہی کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے مسکراتے ہوئے گفتگو میں مداخلت کی اور کہا
ہاں، کہہ دیجیے! مجھے بالکل برا نہیں لگے گا۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع تبصرے نے صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ ممدانی نے پورے اطمینان کے ساتھ صدر کی طرف دیکھا اور احتراماً جواب دیا
جی جنابِ صدر!
ان کا یہ مختصر مگر بامعنی جواب دراصل اس تمام سیاسی بیانیے، اپنی سابقہ پوزیشن اور موجودہ مکالمے کو ایک مربوط اور سنجیدہ تناظر میں سموئے ہوئے تھا۔
دو مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود دونوں رہنما اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہی احساس اُن کے درمیان سیاسی اختلافات کو کسی رکاوٹ میں بدلنے نہیں دیتا ۔ نہ اُن کی ورکنگ ریلیشن متاثر ہوئی، نہ باہمی احترام۔ اختلاف اپنی جگہ، مگر مکالمہ اور تعاون کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ہاں صورتِ حال مختلف ہے۔ مثال کے طور پر سہیل افریدی ابھی تک نہ صدر سے ملا ہے، نہ وزیرِاعظم سے، گویا ایک الگ ہی محاذ بنا کر بیٹھا ہے۔ حالانکہ ذاتی ہوں یا سیاسی، اختلافات ہمیشہ بات چیت سے سلجھتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں مکالمے کی کوئی ریت پروان نہیں چڑھی۔ جو بات گھر کے اندر بیٹھ کر سنجیدگی سے کرنے کی ہوتی ہے، وہ ہم جلسوں میں بلند آہنگ سپیکروں کے ذریعے کرتے ہیں اور جو بات عوام کے سامنے کہنے کی ہوتی ہے، اسے ہم کانا پھوسی میں نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی الٹی ترتیب ہمارے سیاسی کلچر کی بنیادی کمزوری ہے۔
اگر تربیت اور علم کی روشنی انسان کے نفس میں اُتر کر شعور میں تبدیل نہ ہو سکے تو انسان اور بگڑے ہوئے جانور میں کوئی جوہری فرق باقی نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں طاقت انسان کو خادم بنانے کے بجائے اسے تکبر، جبر اور درندگی کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس بگاڑ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم محض رسمی درجہ رکھتی ہے، وہ ذہن کو منور کرنے کے بجائے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔
علم جسے تدبر، تحمل اور اخلاقِ انسانی پیدا کرنا تھا، وہ محنت اور فہم کے بجائے بوٹی مافیا کی بدولت ڈگری کی صورت میں ہمارے گلے میں لٹک جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو کردار کی پختگی، فکری پختہ کاری اور اخلاقی ذمہ داری کی جگہ جہالت، عجلت اور غیر سنجیدگی ہمارے رویّوں سے نمایاں ہوتی ہے۔ یوں تعلیم کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور معاشرہ ذہنی و اخلاقی زوال کا شکار رہتا ہے۔
پی ٹی آئی نے مجموعی سیاسی ماحول میں جو طرزِعمل اختیار کیا، وہ علمی اور جمہوری اقدار کے تقاضوں سے خاصا دور دکھائی دیتا ہے۔ جماعت کے ایک حصے میں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت محدود رہی، جبکہ سیاسی گفتگو میں شائستگی اور دلیل کی جگہ اکثر سخت لہجہ، الزام تراشی اور جارحانہ انداز غالب رہا۔ اسی رویّے نے کارکنوں کی تربیت پر بھی اثر ڈالا، اور یوں اخلاقی اقدار اور سیاسی تحمل وہ مقام نہ پا سکے جو کسی مہذب جمہوری معاشرے میں لازم سمجھا جاتا ہے۔
رہنماؤں کے بیانیے اور طرزِ گفتگو نے بھی اس تندی کو مزید تقویت دی، جس سے سیاسی مباحث کا مجموعی معیار متاثر ہوا۔ سیاست، جو بنیادی طور پر خدمت، برداشت اور مکالمے کا فن ہے، بدقسمتی سے محاذ آرائی، انا اور یکطرفہ سوچ کی نذر ہوتی گئی۔
اگر کسی جماعت کو اجتماعی بھلائی کے لیے اپنا کردار مؤثر بنانا ہو تو اسے نہ صرف اپنی سیاسی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنا ہوتی ہے، بلکہ اپنے کارکنوں اور قیادت دونوں میں برداشت، دلیل اور تہذیب کو فروغ دینا پڑتا ہے۔ جمہوری معاشرے اسی وقت پروان چڑھتے ہیں جب اختلاف کو دشمنی نہیں، بلکہ بہتری کا ذریعہ سمجھا جائے۔

