کامیابی کے تین ستون۔۔۔۔ صبر، محنت اور یقین

تحریر:رشیداحمدنعیم
کامیابی ایک خواب نہیں، ایک کیفیت ہے۔ ایک ایسی روشنی جو دل کے کسی گوشے میں جلتی ہے اور انسان کو حرکت دیتی ہے۔ ہر دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے حصے کی چمک حاصل کرے، کوئی مقام پائے، کوئی نام چھوڑ جائے مگر یہ سوال ہمیشہ زندہ رہتا ہے کہ اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کون سا ہے؟ کیا کامیابی لالچ اور چالاکی کے سہارے حاصل کی جا سکتی ہے یا اس کے لیے صبر، حوصلہ اور عزمِ مصمم درکار ہوتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس نے ہر دور میں انسان کو پرکھا ہے۔لالچ ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو ابتدا میں امید دیتا ہے مگر انجام میں سب کچھ چھین لیتا ہے۔ یہ انسان کے اندر بے چینی پیدا کرتا ہے، اسے شارٹ کٹ کی طرف مائل کرتا ہے اور اس کی بصیرت کو دھندلا دیتا ہے۔ لالچ کا وعدہ بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس کی حقیقت بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ جو شخص لالچ کے سہارے کامیابی حاصل کرتا ہے وہ اندر سے خالی رہتا ہے۔ اس کی کامیابی میں چمک تو ہوتی ہے مگر وہ چمک سورج کی نہیں، کسی بجلی کے بلب کی طرح ہوتی ہے جو چند لمحے کے لیے جلتا ہے اور پھر بجھ جاتا ہے۔شارٹ کٹ کا تصور بھی کم خطرناک نہیں۔ آج کے تیز رفتار زمانے نے انسان کو صبر سے محروم کر دیا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ منزل تک بغیر سفر کے پہنچ جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی راستہ جس میں محنت اور مشقت شامل نہ ہو وہ منزل تک نہیں جاتا بلکہ بھٹکنے والے چوراہے پر ختم ہو جاتا ہے۔ شارٹ کٹ بظاہر آسان لگتا ہے مگر وہ انسان کو اس تجربے اور تربیت سے محروم کر دیتا ہے جو اصل کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ جس نے پسینہ نہیں بہایا وہ کامیابی کی قیمت نہیں سمجھ سکتا۔ وقت نے یہ سچ بارہا ثابت کیا ہے کہ جو شارٹ کٹ سے کامیاب ہوا وہ جلد ہی منظر سے غائب بھی ہو گیا۔ کامیابی کی اصل بنیاد عزمِ مصمم پر ہے۔ وہ پختہ ارادہ جو نہ حالات کے سامنے جھکتا ہے، نہ ناکامیوں کے سامنے ہارتا ہے۔ عزم وہ آگ ہے جو انسان کے اندر سے جلتی ہے اور اسے جلا بخشتی ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو ایک عام انسان کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ ”عزمِ مصمم“ انسان کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ رکاوٹوں کو سیڑھیاں بنائے، ناکامیوں کو اسباق میں بدلے اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے۔
تاریخ کے ہر روشن کردار کے پیچھے یہی قوت کارفرما رہی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
یہ شعر دراصل عزم کا اعلان ہے۔ ایک ایسی پکار جو انسان کو کہتی ہے کہ رکنا نہیں، تھکنا نہیں اور مایوس نہیں ہونا۔قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد اس کی زندہ مثال ہے۔ کتنی ہی رکاوٹیں آئیں، کتنے ہی مایوس کن لمحے گزرے مگر ان کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ عظمت کا سفر قربانی مانگتا ہے۔ یہی راز ہر کامیاب انسان کے دل میں چھپا ہے۔ کوئی بھی عظیم کام آسانی سے نہیں ہوتا۔ محنت، صبر، اور یقین وہ تین ستون ہیں جن پر کامیابی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔لالچ انسان کو جلد بازی کی راہ دکھاتا ہے، عزم اسے استقامت سکھاتا ہے۔ لالچ انسان کے اندر شور پیدا کرتا ہے، عزم اسے خاموشی میں مضبوط بناتا ہے۔ لالچ کہتا ہے”بس ابھی“ عزم کہتا ہے”جب وقت درست ہو گا“۔ اور یہی انتظار کا حسن ہے۔ جب محنت اور دعا ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو کامیابی جنم لیتی ہے۔دنیا کے بڑے بڑے موجد، مفکر اور رہنما اسی اصول پر کامیاب ہوئے۔ تھامس ایڈیسن نے جب بلب ایجاد کرنے کی کوشش کی تو ایک، دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ ناکامی کا سامنا کیا لیکن اس نے ہر ناکامی کو تجربہ سمجھا۔ اس نے کہا:”میں ناکام نہیں ہوا، میں نے بہت سارے ایسے راستے آزمائے جو کام نہیں کرتے تھے۔ یہی ہے عزمِ مصمم۔”عزم مصمم“ وہ کیفیت ہے جس میں انسان ناکامی سے نہیں ڈرتا بلکہ اسے کامیابی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے۔کامیابی کا سفر سیدھا نہیں ہوتا۔ یہ پہاڑی راستہ ہے، جس میں کبھی چڑھائی ہے، کبھی پھسلن، کبھی اندھیرا، کبھی تھکن لیکن جو شخص اپنے عزم کے چراغ کو جلائے رکھتا ہے وہ آخرکار منزل دیکھ لیتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ لالچ کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں وہ راستے ہی میں گم ہو جاتے ہیں کیونکہ لالچ کا کوئی انجام نہیں وہ انسان کو ہمیشہ مزید کی خواہش میں مبتلا رکھتا ہے۔ لیکن عزم انسان کو قناعت، اطمینان اور مقصد دیتا ہے۔کامیابی کے سفر میں سب سے بڑا دشمن جلد بازی ہے۔ جب انسان چاہتا ہے کہ سب کچھ فوراً مل جائے تو وہ اپنے اصول بھول جاتا ہے۔ وہ راستہ چھوڑ کر نتیجہ چاہتا ہے لیکن کامیابی کبھی رشوت نہیں لیتی، وہ صرف صبر اور عزم کو قبول کرتی ہے۔ ایک کسان جب بیج بوتا ہے تو فوراً فصل کی امید نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ زمین کو وقت، پانی اور روشنی چاہیے۔ یہی اصول زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے خوابوں کو صبر سے سینچتا ہے وہی آخرکار پھل پاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں آج کامیابی کو اکثر دولت، شہرت یا تعلقات سے ناپا جاتا ہے مگر اصل کامیابی وہ ہے جو انسان کے کردار میں نکھار پیدا کرے۔ جو اسے دوسروں کے لیے مثال بنا دے۔ ایک کامیاب شخص وہ نہیں جو سب کچھ حاصل کر لے بلکہ وہ ہے جو اپنی سچائی پر قائم رہے، چاہے دنیا اس کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عزمِ مصمم انسان کو یہی طاقت دیتا ہے سچ پر قائم رہنے کی، اصولوں پر جینے کی۔کامیابی کی کہانی دراصل ایک مسلسل جدوجہد کی کہانی ہے۔ یہ ان لمحوں سے بنتی ہے جب انسان اکیلا ہوتا ہے مگر ہار ماننے سے انکار کرتا ہے۔ یہ اس خاموش قوت کا نتیجہ ہے جو دل میں کہتی ہے”میں کر سکتا ہوں“یہی وہ لمحہ ہے جب انسان خود پر یقین کرنے لگتا ہے اور یقین، عزم کو جلا دیتا ہے۔لالچ انسان کو دوسروں کی کامیابی سے حسد سکھاتا ہے، عزم اسے ان کی کامیابی سے سیکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ لالچ چاہتا ہے کہ سب کچھ جلدی ہو جائے، عزم چاہتا ہے کہ سب کچھ صحیح ہو جائے۔ یہی فرق ہے اُن میں جو لمحاتی چمک میں کھو جاتے ہیں اور اُن میں جو ہمیشہ کے لیے روشنی بن جاتے ہیں۔ کامیابی کا راز کسی چال، کسی شارٹ کٹ یا کسی چمک دار وعدے میں نہیں چھپا۔ یہ انسان کے اپنے اندر پوشیدہ ہے جو اپنے دل میں ایمان، ارادہ اور صبر پیدا کر لے وہ دنیا کے کسی بھی کٹھن راستے کو آسان بنا لیتا ہے۔ دولت اور شہرت وقتی ہیں مگر عزمِ مصمم انسان کو وہ مقام دیتا ہے جو وقت سے ماورا ہوتا ہے لہٰذا اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو لالچ سے بچیں اور شارٹ کٹ سے گریز کرتے ہوئے اپنے عزم کو پختہ کیجیے کامیابی آپ کے قدم چومنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ دنیا ہمیشہ اسی کے سامنے جھکتی ہے جس نے اپنے خوابوں کے لیے جدوجہد کی ہو، اپنی محنت کو ایمان بنایا ہواور اپنے عزم کو عبادت سمجھا ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وقت کے دھارے پر اپنی شناخت رقم کر جاتے ہیں اور یہی اصل کامیابی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں