سیاست کا خاتمہ خورشید ندیم

خورشید ندیم
اہلِ وطن کو خبر ہو کہ سیاست کا باب بند ہو چکا۔ ان کیلئے یہی مشورہ ہے کہ:
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو؍ اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا
سیاست کا بھرم سیاسی جماعتوں سے ہے۔ وادیٔ سیاست کی رونق اور ہنگامہ آرائی انہی کے دم خم سے ہوتی ہے۔ جب ان کا وجود ہی کالعدم ہو جائے تو کہاں کی سیاست؟ سیاسی جماعتیں قائم رہتی ہیں کسی آدرش‘ نصب العین‘ نظریے‘ بیانیے اور قیادت کی بنیاد پر۔ یہ بنیادیں منہدم ہو چکیں۔ ان کے بغیر عمارت کیسے کھڑی رہ سکتی تھی؟
حدِ نظر تک اک تنہائی خاک اڑاتی پھرتی ہے
صحرا بے بس اپنی ہی ویرانی سے ہو جاتا ہے
(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا وجود اقتدار کے ایوانوں میں گم ہو چکا۔ وہ اب ایسے سیاسی بندوبست کے اعضا وجوارح ہیں جو اُن کا قائم کردہ نہیں ہے۔ ان کی حیات اس پر منحصر ہے کہ اس بندوبست کیلئے اپنی افادیت ثابت کرتے رہیں۔ ان دونوں کے خدوخال اب ایک جیسے ہیں۔ بیانیے کا فرق باقی ہے اور نہ حکمتِ عملی کا۔ دونوں علامہ اقبال کے پروانے ہیں: دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ۔ تحریک انصاف کبھی سیاسی جماعت تھی ہی نہیں۔ بنیادی اخلاقیات اور عقلِ سلیم سے بے نیاز ایک کلٹ۔ جماعت اسلامی پچاسی برس میں یہ طے نہیں کر سکی کہ وہ ایک تحریک ہے یا سیاسی جماعت۔ سیاسی جماعت بنتی ہے تو تحریک پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ تحریک بننا چاہتی ہے تو سیاست اپنے مطالبات کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ایک سیاسی جماعت بن سکتی ہے‘ جس کا قائد سرتاپا سیاستدان ہے۔ مخمصہ مگر یہ ہے کہ اس کا آشیانہ ایک مسلکی عصبیت کی شاخ پر قائم ہے جو سیاست کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ مسلک ایک تنگنائے ہے‘ سیاست ایک سمندر۔
سیاسی جماعتیں عوام کیلئے اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکیں۔ اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہیں۔ وقت کا جبر بھی ایک سبب ہے۔ ان کو کبھی سازگار حالات میسر نہ آ سکے۔ جب بھی اڑنے کی کوشش کی‘ پَر کاٹ ڈالے گئے۔ ان کی نااہلی بھی مگر امرِ واقعہ ہے۔ یہاں جب کسی کو سیاسی عصبیت ملی تو وہ اپنی ذات یا خاندان کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا۔ عوامی پذیرائی کو شخصی یا خاندانی اقتدار کے دوام کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک سیاسی جماعت نہیں بنائی جس کی جڑیں عوام میں ہوں‘ جو اپنی طاقت گلی بازار سے کشید کرے ۔ پیپلز پارٹی کبھی عوامی جماعت تھی۔ یہ جماعتیں اقتدار میں شراکت پر آمادہ نہیں ہوئیں۔ بلدیاتی نظام نہیں بنایا کہ اختیار تقسیم نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے مداحوں اور مفاد پرستوں کا کلب بنایا جس کی پیشانی پر سیاسی جماعت کی تختی آویزاں کر دی۔ وقت کا جبر انہیں سیاسی اصلاحات سے روک نہیں سکتا تھا مگر انہوں نے اس راستے کا انتخاب ہی نہیں کیا۔
دوسری طرف دنیا میں بھی ایک بڑی تبدیلی ہے۔ جمہوریت کے سامنے اب ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس جمہوریت سے ہم واقف ہیں اور جو لبرل جمہوریت کہلاتی ہے‘ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی معیت میں آئی ہے۔ علامہ اقبال نے ان کے تعلق کے سبب‘ اس پر تبصرہ کیا تھا کہ ‘چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر‘۔ اشتراکیت کے چیلنج نے اسے کسی حد تک عوام کی طرف متوجہ کیا مگر وقت نے ثابت کیاکہ یہ در اصل سرمایہ داروں کی خدمت کیلئے ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ریاست کو کمزور کر کے‘ نجی شعبے کو حکومت کا درجہ دے دیا گیا۔ اسکا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے اسّی فیصد وسائل‘ 20فیصد کے ہاتھ میں چلے گئے‘ اس پر ردعمل ہوا۔ جو معاشرے جمہوریت کے خوگر تھے‘ ان میں جمہوریت کی جگہ پاپولزم نے لے لی۔ جن قوموں کے مزاج جمہوری نہیں تھے‘ وہاں لوگ کسی مسیحا کا راستہ دیکھنے لگے۔
اس نے دنیا کو ہائبرڈ نظام کا راستہ دکھایا‘ جس کے دو کامیاب ترین مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ ایک چین‘ دوسرا سعودی عرب۔ چین میں یک جماعتی نظام کے ساتھ ایک سیاسی بندوبست قائم ہے جہاں ریاست ہی فیصلہ کن ہے۔ ریاست نے لیکن عوام کو کامیابی سے ہم سفر بنا رکھا ہے۔ وہ ترقی کے عمل میں شریک ہیں اور اسکے نتائج سے مستفید ہونیوالوں میں بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں ریاست بادشاہت کی صورت میں اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہے۔ اس کیساتھ مگر عوام کیلئے میدانِ عمل کو وسیع کیا جا رہا ہے۔ انکی پسند ناپسند کو ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ انکے جذبات کی تسکین کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت نہ ہونے کے باوجود‘ چین اور سعودی عرب میں عوامی سطح پر کوئی اضطراب نہیں۔
جمہوریت کے بارے میں یہ مایوسی اس لیے پیدا ہوئی کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں کے چنگل سے نہیں نکل سکیں۔ جمہوریت بطور قدر مستحکم ہوئی مگر بحیثیت سیاسی نظام‘ عوام کو اقتدار میں شریک نہ کر سکی۔ ترقی پذیر معاشروں میں تو سیاسی جماعتیں بن ہی نہیں سکیں۔ بھارت میں کانگریس نے اپنے طاقتور سیاسی ماضی کے سبب کسی حد تک اپنا وجود قائم رکھا مگر بہار کے انتخابات سے معلوم ہوا کہ پاپولزم کی گرفت بدستور مضبوط ہے۔ پاکستان کا حال میں سنا چکا کہ یہاں سیاسی جماعتوں کا وجود باقی نہیں ہے۔پاکستان بھی اب اسی راہ کا مسافر ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد‘ یہ بات بڑ ی حد تک مستحکم ہو چکی کہ موجودہ سیاسی بندوبست کو آئینی چھتری بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ گویا ریاست اس باب میں یکسو ہو چکی کہ مستقبل میں سیاسی جماعتوں کا کوئی انفرادی کردار نہیں ہو گا۔ ملک میں اب ایک ہی سیاسی جماعت ہو گی جو اس حکمتِ عملی کے ساتھ ہم آہنگ ہوگی جو ریاست اختیار کرے گی۔ اس وقت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی عملاً ایک جماعت بن چکیں۔ آنے والے دنوں میں ممکن ہے الگ نام کا تکلف بھی باقی نہ رہے۔ پارلیمان‘ عدلیہ اور انتظامیہ کا اب ایک ہی کردار ہوگا: ریاستی حکمتِ علی کو نتائج تک پہنچانا۔ یہ نتائج استحکام اور معاشی ترقی ہے۔ اس سے اختلاف کرنے والوں کیلئے اب کوئی جگہ نہیں۔
کیا یہ نظام کامیاب رہے گا؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کوئی ملک جب کسی بڑی تبدیلی سے گزرتا ہے تو اس کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیا اس نئے نظام کی مزاحمت ہو گی؟ اگر ہوگی کی تو کس سطح پر؟ اس مزاحمت پر ریاست کا ردعمل کیا ہو گا؟ اگر یہ ویسا ہو گا جیسا چین اور سعودی عرب میں ہوتا ہے تو اس کا احساس ہی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اگر ویسا نہیں ہوتا تو کیا مزاحمتی قوتوں کو قابو میں لایا جا سکے گا؟ جب تک ان سوالات کے جواب نہیں مل جاتے‘ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ریاست اور مزاحمتی قوتوں کو ایک ایسے حل کی طرف بڑھنا چاہیے جو تصادم پر منتج نہ ہو۔ اس صورت میں بنیادی سوال یہ ہو گا کہ مزاحمتی قوتیں کیسے ان نظام کا حصہ بن سکتی ہیں؟ انہیں کیسے ریاست کی بالادستی کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب کی زیادہ فکر ریاست کو ہونی چاہیے۔ جب اس نے اصلاح کی تمام تر ذمہ داری اٹھا لی ہے تو پھر اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ ریاست کی سطح پر ایک ایسا مشاورتی نظام موجود ہو جو معیشت‘ سیاست اور سماج کے باہمی تعلق کو سمجھتا ہو اور معاشرتی حقائق کی روشنی میں ایک ایسی حکمتِ عملی وضع کر سکے جو سب کیلئے قابلِ قبول ہو۔ اس حکمتِ عملی کیلئے جبر نہیں‘ سیاسی بصیرت کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح مزاحمتی قوتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیسویں صدی کی انقلابی جدوجہد کیلئے اب کوئی جگہ نہیں ہے۔ اشتراکیت زدہ تصورِ انقلاب صرف لاشیں دے سکتا ہے۔
ریاست اور مزاحمتی قوتیں‘ عرصہ آزمائش میں ہیں۔ اللہ کرے دونوں کامیابی کے ساتھ اس سے گزرجائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں