عمران خان نے ضامن ڈھونڈ لیا!

رؤف کلاسرا
مجھ سے اکثر ٹی وی شوز میں پوچھا جاتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے کیا امکانات ہیں‘ کب تک وہ جیل سے باہر آجائیں گے؟ یہ سوال آپ کو اپنے ملک کے علاوہ بیرونِ ملک بھی بار بار سننے کو ملتا ہے۔ سب کو لگتا ہے کہ ہم صحافی بہت باخبر ہوتے ہیں اور ہمارے پاس اندر کی خبریں ہوتی ہیں۔ وہ خبریں ہمارے پاس ہوتی ہیں یا نہیں‘ یہ الگ بات لیکن خبریں نہ بھی ہوں تو سامنے والا آپ سے خبریں جاننے کا خواہشمند ہوتا ہے اور خبر بھی وہ سننا چاہتا ہے جو اس کی پسند کی ہو۔ لہٰذا اکثر صحافی یا اینکرز اپنا تجزیہ دیتے ہوئے اندرونی خبر کا تاثر دیتے ہیں تاکہ بھرم نہ ٹوٹے کہ موصوف بہت باخبر ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی خبروں کی کوئی دستاویز بھی نہیں ہوتی۔ کسی سکینڈل کے کاغذ ہاتھ لگ جائیں تو آپ پورے اعتماد اور اتھارٹی کے ساتھ خبر دیتے ہیں اور کل کلاں کو کہیں چیلنج بھی کیا جائے تو آپ ثبوت دکھا سکتے ہیں۔ سیاسی خبروں میں زیادہ تر آپ کا تجزیہ ہوتا ہے۔ میں اسے اپنی زبان میں ‘رِیڈنگ‘ کہتا ہوں کہ برسوں سیاست اور سیاسی لوگوں کے ٹرینڈز فالو کرنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ سیاست یا سیاستدانوں کے بارے میں کچھ پیش گوئی کر سکیں کہ اب حالات کس طرف جا رہے ہیں اور آگے کیا ہو سکتا ہے۔ جب آپ کی سیاسی پیش گوئیاں ٹھیک نکل آتی ہیں تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اس کے پاس تو بڑی خبر تھی۔ حالانکہ وہ خبر سے زیادہ آپ کا تجزیہ یا رِیڈنگ ہوتی ہے‘ جو ٹھیک نکلتی ہے۔ یہ بات اس مثال سے سمجھیے۔ ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھا کہ وہ کسے اچھا کپتان سمجھتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب خود فرسٹ کلاس کرکٹر رہے تھے۔ ماجد خان کے ساتھ فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کی سب سے بڑی اوپننگ کا اعزاز بھی ان کے پاس تھا‘ کاردار صاحب کے ساتھ سات برس سیکرٹری کرکٹ بورڈ رہے‘ کرکٹ سلیکشن کمیٹی کے ممبر اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے سلیکٹر بھی تھے‘ لہٰذا کئی دہائیوں تک وہ کرکٹ اور کرکٹرز کو بڑے قریب سے دیکھ اور پرکھ چکے تھا۔ سلیکٹر کے طور پر انہوں نے کئی کپتان ہٹائے اور کئی نئے بنائے۔ وہ سب کی کمزوریوں اور خوبیوں سے واقف تھے۔ کہنے لگے: حفیظ کاردار اور عمران خان کو ایک طرف کر دیں کہ ان دونوں کا کوئی موازنہ نہیں۔ ان دونوں کی کلاس الگ تھی۔ لیکن اگر عمران خان کے بعد دیکھا جائے تو میں وسیم اکرم کو دوسروں سے بہتر کپتان سمجھتا ہوں۔ بائولر تو وہ وسیم اکرم کو عمران خان سے بھی بڑا مانتے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے: وسیم اکرم میں ایک خوبی تھی جو اسے دوسرے کپتانوں سے ممتاز کرتی تھی‘ وہ میچ کو رِیڈ کر سکتا تھا۔ یہ کام بہت کم کھلاڑی یا کپتان کر سکتے ہیں کہ میچ کو ریڈ کر کے اس کے مطابق اپنی حکمت عملی تشکیل دے کر میچ جیتنے کی کوشش کریں۔ جیت‘ ہار سے ہٹ کر میچ کی سمت کو ریڈ کرنا ڈاکٹر صاحب کے خیال میں کسی بھی کپتان کی بڑی خوبی ہوتی ہے اور یہ ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ان کے بقول وسیم اکرم میں یہ خوبی تھی۔
یہ بات سیاسی رپورٹروں یا تجزیہ کاروں پر بھی صادق آتی ہے کہ وہ سیاسی حقائق دیکھ کر کیا پیش گوئی کریں جو ٹھیک ثابت ہو اور لوگوں کو حیران کر دے۔ اس معاملے میں آج کی صحافت میں مجھے سہیل وڑائچ نظر آتے ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ سیاسی منظرنامے کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے بہت سیاسی سورسز ہیں‘ جن سے ان کا ملنا جلنا رہتا ہے لہٰذا سیاسی حالات کو سیاسی کھلاڑیوں سے سن کر بھی وہ کوئی ایسا نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو دوسروں کو حیران کر دے۔ ان کے کریڈٹ پر ایسی کئی خبریں اور سکُوپ ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب کوئی اپنا مستقبل جاننے کیلئے جوتشی سے زائچہ بنواتا ہے۔ اس زائچے کے حقائق نہیں بدلے جا سکتے‘ جیسے کہ آپ کس دن پیدا ہوئے‘ کس سال‘ کس وقت اور کہاں پیدا ہوئے۔ یہ زائچہ ہزاروں جوتشیوں کو دیں‘ وہ سب مختلف انداز میں اس کی تشریح کریں گے اور مختلف پیش گوئیاں کریں گے۔ بہت کم باتیں ہوں گی جو آپس میں ملتی ہوں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے ہٹ کر باتیں بتا رہے ہیں۔ اکثر اپنی غلط پیش گوئیوں پر آپ کو الزام دیں گے کہ آپ نے صحیح ڈیٹا نہیں فراہم کیا‘ چاہے ڈیٹا سو فیصد درست ہو۔ البتہ ایک آدھ جوتشی یقینا ایسا بھی ہو گا جس کی آپ کے ماضی‘ حال یا مستقبل کے حوالے سے باتیں بالکل درست ثابت ہوں۔ آپ حیران ہوں گے کہ دوسرے تو بہانے بناتے رہ گئے لیکن اس نے سب کچھ کھنگال لیا۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ اس جوتشی کی زائچہ پڑھنے کی صلاحیت دوسروں سے بہت بہتر ہے۔ اس کو اس ہنر پر ملکہ حاصل ہے‘ ورنہ کوئی ایسی اطلاع نہ تھی جو اس کے پاس ہو اور دوسروں کو نہ ملی ہو۔ جس طرح اس نے سیاروں کی سمت‘ چال ڈھال اور اثرات کو سمجھا وہ دوسرے نہ سمجھ سکے۔ یہی بات سیاسی تجزیہ کاروں پر بھی صادق آتی ہے۔
اتنی لمبی تمہید کی وجہ ایک بیان ہے جو محمود خان اچکزئی نے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئیں! آئین کی بالادستی کیلئے ہم سب اختلافات بھلا دیتے ہیں‘ نئے سرے سے نیا کنٹریکٹ لکھتے ہیں‘ ماضی کو دفن کر کے آگے چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کا بھروسا نہیں کہ وہ جیل سے نکل کر اقتدار میں آیا تو سب سے انتقام لے گا۔ لہٰذا میں ضمانت دیتا ہوں کہ عمران خان سے نئے عمرانی معاہدے پر دستخط کرا کے لائوں گا کہ سب نئی شروعات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی ضمانت لیتے ہیں کہ وہ جیل سے نکل کر کوئی انتقام نہیں لیں گے۔ یاد آیا کہ بینظیر بھٹو نے 1993ء کے الیکشن میں غالباً پی ٹی وی کو انٹرویو میں یہی کہا تھا کہ نیا سوشل کنٹریکٹ کیا جائے گا‘ جس میں تمام پارٹیاں ماضی بھلا کر آگے بڑھیں گی۔ اُن دنوں نیلسن منڈیلا ماڈل پر ‘ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن‘ کی بڑی دھوم تھی اور تیسری دنیا میں یہ لفظ نیا نیا متعارف ہوا تھا لہٰذا اس کا جادو سب کے سروں پر چڑھ کر بول رہا تھا۔ آنے والے برسوں میں بھی اس کا ذکر ہوتا رہا۔ مختلف ادوار میں جب بھی وزیراعظم یا دیگر سیاسی رہنما کرپشن پر پکڑے گئے تو انہوں نے نئے عمرانی معاہدے کی بات کی مگر اپنے اپنے ادوار میں سب ایک دوسرے کو جیلوں میں بھی ڈالتے رہے۔ یہ نئے عمرانی معاہدے کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم کھا پی چکے‘ وہ ہمیں معاف ہوا اور جو کچھ آپ نے کھایا پیا‘ وہ آپ کو اللہ نصیب کرے۔ قانون کے نام پر جیلیں اور مقدمات صرف عوام بھگتیں گے۔
اب جب اچکزئی صاحب عمران خان کے ضامن بن کر سامنے آئے ہیں تو ایک بات کی مجھے دلی خوشی ہوئی کہ چلیں! پوری دنیا میں دو سال کی محنت اور کوشش سے آخرکار ایک بندہ تو ایسا مل گیا جو کسی ممکنہ ڈیل کی صورت میں عمران خان کا ضامن بننے کو تیار ہے۔ ورنہ دنیا کے کسی ملک یا اہم شخصیت نے عمران خان کا ضامن بننا تو چھوڑیں‘ کبھی پوچھا تک نہیں۔ پاکستان کیلئے سعودی عرب‘ امریکہ اور چین اہم ممالک ہیں اور خان نے سب سے بگاڑ رکھی ہے۔ نواز شریف کے ضامن سعودی اور بینظیر بھٹو کے ضامن امریکی تھے‘ لہٰذا نواز شریف جیل سے جدہ گئے اور بی بی دبئی سے پاکستان آئیں۔ اب عمران خان کے ضامن محمود اچکزئی ہیں‘ جو مقتدرہ کے نزدیک وہ سرخ کپڑا ہیں‘ جو سپین میں بھینسے کو غصہ دلانے کیلئے لہرایا جاتا ہے۔ اب اگر میں پوچھوں کہ محمود خان اچکزئی کی اس ضمانت کا کیا نتیجہ نکلے گا تو اس سوال کا جواب آپ بھی دے سکتے ہیں کہ اس ضامن کی بات کہاں تک مانی جائے گی اور عمران خان کب تک جیل سے باہر نکل کر نئے عمرانی معاہدے پر دستخط کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں