اداریہ
حبیب جالب بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (B.S.O) کے چیئرمین اور پروگریسیو یوتھ مومنٹ (P.Y.M) کے رہنما کے طور پر ایک ایسی سیاسی شخصیت ہیں، جو اپنی جرأت مندانہ آواز، فکری مزاحمت اور بلوچ قوم کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں اور فکری رہنمائی نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
حبیب جالب بلوچ کو بلوچ قومی تحریک کی فکری بنیادوں کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ وہ محض ایک رہنما نہیں، بلکہ ایک متحرک سیاسی کارکن، ایک جرأت مند آواز اور فکری مزاحمت کی علامت تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کے اجتماعی مسائل، فکری خودمختاری اور نظریاتی اصولوں کے لیے وقف کر دی ۔
جمہوری اصولوں پر استحکام: وہ پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہ جدوجہد کی علامت تھے۔ ان کا سیاسی انداز جمہوری اصولوں اور عوامی نمائندگی پر مبنی تھا، جس نے انہیں ہر طبقے میں قابل احترام بنایا ۔
·
حبیب جالب بلوچ ان رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے “وقت کی آمریت کو چیلنج” کیا اور “ریاستی جبر کے خلاف دلیل کی طاقت” سے لڑے۔ انہوں نے قومی بیانیے کو شعوری بنیاد فراہم کی اور ہمیشہ حقائق کو بے خوفی سے بیان کیا ۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (B.S.O): بی ایس او کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے نوجوان نسل کی سیاسی بیداری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بی ایس او نے ان کی فکری میراث کو زندہ رکھنے اور آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا عہد کیا ہے۔ تنظیم کے ترجمان کے مطابق “شہید حبیب جالب بلوچ کا نام بلوچ قومی تحریک کی فکری بنیادوں میں کندہ ہے” ۔
· پروگریسیو یوتھ مومنٹ (P.Y.M): پی وائی ایم کے لیڈر کے طور پر انہوں نے نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ان میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے قابل ذکر کام کیا۔ ان کی قیادت میں اس تحریک نے بلوچ نوجوانوں کے حقوق اور ان کی سیاسی نمائندگی کے لیے اہم اقدامات کیے۔
ان کی سیاسی سرگرمیاں بلوچستان کی دیگر قومی تحریکوں سے گہری وابستگی رکھتی ہیں، جس نے انہیں علاقائی سیاست میں ایک اہم مقام دیا۔
حبیب جالب بلوچ کی شہادت نے بلوچ سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ان کی شہادت کو محض ایک فرد کی خاموشی نہیں، بلکہ “بلوچ قوم کے فکری وجود پر حملہ” قرار دیا گیا۔ تاہم، ان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ “نظریہ گولی سے نہیں مٹتا”، اور ان کا فکری ورثہ آج بھی زندہ ہے ۔
حبیب جالب بلوچ کی فکری میراث نے بلوچ نوجوانوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آج بھی ان کے افکار کو اپنی تحریک کا “ستون” قرار دیتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ وہ اس ستون کو گرنے نہیں دیں گی ۔
ان کی سیاسی جدوجہد نے نہ صرف بلوچ عوام بلکہ پورے پاکستان میں مقامی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے راہنمائی کا کام کیا۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں حبیب جالب بلوچ کا نام ان رہنماؤں میں شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں عوامی حقوق کی نمائندگی کی۔ اختر مینگل، رستم ایڈوکیٹ، پیر محمد بلوچ، سعید فیض، امان اللہ بلوچ, لعل جان بلوچ، ستار بلوچ، عابد بلوچ، فیض شاہ جیسے دیگر بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مل کر انہوں نے بلوچ عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھیں ۔
ان کی سیاسی جدوجہد کا مرکز ہمیشہ پرامن سیاسی حل، مذاکرات اور جمہوری عمل پر زور دینا رہا، جو بلوچستان کے موجودہ مسائل کا شاید واحد مستحکم حل ہے ۔
حبیب جالب بلوچ کی زندگی اور جدوجہد کا یہ مختصر جائزہ واضح کرتا ہے کہ وہ بلوچ سیاسی منظر نامے پر ایک انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی فکری میراث اور سیاسی نظریات آج بھی بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں اور بلوچستان کے روشن مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

