ڈاکٹر ارشد‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور اظہار الحق

خالد مسعود خان
میں اس چھوٹے سے سفر کے بارے میں سوچ کر خوش تھا کہ یہ سفر گو کہ مختصر ہوگا‘ اوپر سے خوش قسمتی یہ ہو گی کہ میرے ایک طرف صابر اور دوسری طرف شاکر بیٹھا ہو گا مگر بہرحال یہ خوشی ادھوری رہ گئی۔ میرے ایک طرف شاکر تو تھا مگر صابر حسبِ معمول غچہ دے گیا تھا۔ قیصر عباس صابر صاحبِ طرز سفر نامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ جملے باز ہے اور جملے کے بارے میں اسی پرانی روایت کا امین ہے کہ بندہ بھلے سے ضائع ہو جائے مگر جملہ ہرگز ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ سو وہ بندہ ضائع کرنے کے فن میں اس قدر تاک ہو چکا ہے بعض اوقات جملے سے بھی پہلے بندہ ضائع کردیتا ہے۔
شاکر حسین شاکر ملتان میں ادبی سرگرمیوں کے گلستان کا باغبان ہے۔ہر فن مولا ہے اور شاعری سے نثر تک ہر میدان کا شاہسوار ہے لیکن سب سے بڑھ کر دوستوں کا دوست ہے اور دن کا بیشتر حصہ دوستوں کی آسانی کیلئے خود کو مشکل میں ڈالے رکھتا ہے۔ ہم ملتان کے نواحی قصبے قادر پور راں میں اقرا لائبریری والے ڈاکٹر ملک ارشد حسین راں کی دعوت پر ان کے ہاں جا رہے تھے۔ کتاب سے محبت میں مبتلا ڈاکٹر ارشد ایک ماہر سرجن ہے لیکن میرا اس سے تعلق کسی طرح سے بھی ڈاکٹر اور مریض کا نہیں بلکہ یہ تعلق سرا سر کتاب سے محبت کے باعث ہے۔ مجھے ڈاکٹر ارشد اس لیے بھی بھلا لگتا کہ اس کی قادر پورراں میں قائم کی گئی چھوٹی سی فری پبلک لائبریری میں مجھے اپنے بچپن اور لڑکپن کی ”آنہ لائبریری‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ کیا زمانہ تھا جب ہر گلی میں نہ سہی مگر ہر محلے میں کم از کم ایک عدد آنہ لائبریری ضرور ہوتی تھی جس میں نسیم حجازی سے لے کر ابن صفی کی عمران سیریز تک ہر قسم کے ناول روزانہ ایک آنہ کرایہ کی صورت میں پڑھنے کیلئے دستیاب ہوتے تھے۔
خود میرے محلے میں چچا غفور کہیں سے کئی ہاتھ بکی ہوئی ایک عدد پوری لائبریری خرید کر لے آئے اور ہمارے محلے میں جو ایک کمی تھی وہ بھی نہ رہی۔ ان کتابوں پر پہلے والی دو تین لائبریریوں کی مہریں لگی ہوئی تھیں‘ جو بتاتی تھیں کہ یہ کتابیں ہمارے محلے کی لائبریری کی زینت بننے سے قبل اور کئی محلوں کی خاک چھان چکی ہیں۔ مختلف قسم کے کاروباروں میں ناکامی کے بعد چچا غفور کو یہ کام راس آ گیا تھا کہ انہیں کسی قسم کا کوئی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہینگ اور پھٹکڑی لگائے بغیر یہ لائبریری چلا رہے تھے اور ان کا واحد کام یہ تھا کہ وہ ایک عدد خستہ سے رجسٹر پر‘ جو شاید انہوں نے لائبریری کی دیگر کتابوں کے ہمراہ مفت میں مارا تھا‘ کتاب لینے والے کا نام اور تاریخ لکھ لیتے اور اس کام کے بعد وہ اپنی لائبریری کی کوئی بھی کتاب اٹھاتے اور ایک آنہ کرایہ دیے بغیر پڑھنا شروع کر دیتے۔ تھوڑے عرصے کے بعد ان کی کتاب بینی کی استعداد اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کتاب کے شوقین حضرات کو کتاب کے انتخاب میں مشورے دینے لگ پڑے۔
پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ شاندار روایت دم توڑنے لگ گئی اور پھر ایسا ہوا کہ یہ آنہ لائبریریاں بالکل ہی عنقا ہو گئیں۔ صرف میرے محلے کی کیا کہیں‘ یہ لائبریریاں پورے شہر بلکہ پورے ملک میں ہی ناپید ہو گئیں۔ ساتھ والے محلے دائرہ بستی کی لائبریری ہمارے محلے کی لائبریری کی نسبت کافی بڑی تھی مگر وہ بھی صفحہ ہستی سے ویسے ہی غائب ہو گئی جیسے ہمارے محلے کی لائبریری غائب ہوئی تھی۔ اسی دوران چچا غفور بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو کہ اب اس عمر میں جبکہ میں پہلے بہت سے کاموں میں ناکامی کے بعد پہلی بار اس کام میں اپنی زندگی سہولت سے گزار رہا ہوں‘ اب نئے سرے سے بھلا کیا کام شروع کروں گا۔ سو وہ لائبریری بند ہونے کے ساتھ ہی آنکھیں بند کر گئے۔ چچا غفور اور آنہ لائبریری اب صرف ایک یاد ہے۔ دو دکانوں میں قائم قادر پور راں کی اقرا لائبریری میں مجھے اپنے بچپن کی آنہ لائبریری دکھائی دیتی ہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ ہاں! البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر ارشد ایک علیحدہ ٹائپ کا چچا غفور ہے جو اپنی لائبریری کو ذریعہ آمدنی کیلئے نہیں‘ محض اپنے شوق کی تکمیل کیلئے چلا رہا ہے اور اپنے اس شوق کو پورا کرنے کیلئے ہر ماہ ایک معقول رقم کی کتابیں خرید کر اس لائبریری کی شیلفوں پر سجا کر خوش ہوتا ہے۔
اُس روز قادر پورراں جانے کا واحد مقصد ڈاکٹر ارشد کی دو عدد کتابوں کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنا تھی۔” درخت کی کہانی‘‘ سانحہ آرمی پبلک سکول کے پس منظر میں لکھا جانے والا ناول ہے جبکہ ان کی کتاب” ہم سب شیطان ہیں‘‘ اس معاشرے کے ان پہلوئوں کی نشاندہی کرنے والی کہانیوں پر مشتمل ہے جن سے ہم عموماً اپنی آنکھیں چراتے ہیں۔
کیا عجب تضاد ہے کہ اس ملک میں جہاں ایک طرف آنہ لائبریری کا پورا نظام اور روایت ایسے اڑن چھو ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں اور ادھر ایک چھوٹے سے قصبے میں رات گئے کتاب سے محبت کرنے والوں کی اتنی معقول تعداد موجود تھی کہ حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ اب بھی کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے تو نتائج حوصلہ افزا نکل سکتے ہیں۔
ادھر ایک ڈاکٹر ارشد ہے جو کتاب کلچر کے فروغ کیلئے اپنے حصے کا دیا جلا رہا ہے اور اُدھر ہمارے دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں جو مسلسل صرف تخلیق کر رہے ہیں۔ ستر سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی عوامی اور عمومی شہرت ایک مزاحیہ شاعر کے طور پر ہے‘ تاہم وہ نظم اور نثر کے میدانِ قلم کے ایسے شہسوار ہیں جو نہایت عمدہ محقق‘ نہایت اعلیٰ نقاد‘ بہت خوبصورت نثر نگار اور اپنی عوامی شہرت مزاحیہ شاعری کے علاوہ بہت شاندار سنجیدہ شاعر بھی ہیں۔ شاعری میں درجن سے زائد تصانیف کے بعد اب ان کی مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری پر مشتمل دو عدد مجموعے کلیات کی صورت میں چھپ کر آئے ہیں اور میں ان سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔
مجھے بعض اوقات حیرانی ہوتی ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران‘ جن میں اکیڈمی آف لیٹرز کی ذمہ داری‘ مقتدرہ قومی زبان‘ نیشنل بک فائونڈیشن کی سربراہی کے علاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس قدر تخلیقی‘ تحقیقی اور ادبی کام کس طرح کر لیا۔ شاعری کے دونوں کلیات جہاں ان کے تسلسلِ شعر گوئی کا ثبوت ہیں وہیں ان کی تازہ کاری کا بھی مظہر ہیں کہ ان کی مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری نئے مضامین کے حوالے سے قاری کو اپنے ساتھ بہائے چلی جاتی ہے۔
میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو شاعر کے طور پر تو کم از کم گزشتہ سنیتس اڑتیس سال سے جانتا ہی ہوں مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں مزاحیہ شعرا دریافت کرنے اور انہیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر متعارف کرانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ مزاحیہ ادب کی ایسی خدمت ہے جیسے تادیر یاد رکھا جانا چاہیے۔ ڈہرکی سندھ کے نواحی قصبے اوباڑو سے ندیم آزر جیسے شاعر سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان کے رحمت اللہ عامر تک کو ملکی سطح پر متعارف کرانا تو محض مشتے از خروارے ہے وگرنہ یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ اردو اور پنجابی میں یکساں مہارت اور گرفت کے ساتھ لکھنا ایک علیحدہ خوبی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے ساتھ اَن گنت مشاعرے پڑھنے اور ان کے کلام کا بہت بڑا حصہ سننے کے بعد جب ان کی مزاحیہ شاعری کی کلیات دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جتنا کلام سنا ہے وہ اس کلام کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو اس کلیات میں یکجا ہے۔
کتاب سے یاد آیا میرے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر اردو شاعری کی آبرو بڑھانے والے جناب اظہار الحق کی کتاب ”اے آسمان نیچے اُتر‘‘ موجود ہے جسے میں دیگر کتابوں کے مطالعے کے دوران کھول کر دیکھتا ہوں اور پھر دوبارہ رکھ دیتا ہوں کہ یہ کتاب اس طرح دیکھنے کی نہیں‘ کسی اور طرح سے‘ کسی اور سلیقے سے پڑھنے والی کتاب ہے۔ کسی روز اسے حالتِ قرار میں پڑھ کر آپ کو شاملِ حال کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں