اگر پاکستان نہ بنتا

محمد اظہار الحق
سید افتخار گیلانی معروف صحافی ہیں۔ اُن کا تعلق بھارت (مقبوضہ کشمیر) سے ہے۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو کَور کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے بھارتی اور غیرملکی اخبارات کے لیے کام کیا۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو کی سربراہی کی۔ کئی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار ”کشمیر ٹائمز‘‘ کے دہلی بیورو کے اینکر رہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے نائب صدر رہے۔ کئی بھارتی تھنک ٹینکس کے لیے تحقیقی کام کیا۔ انہیں بھارتی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں بھی رکھا۔ ان ایامِ اسیری کی سرگزشت انہوں نے My days in Prisonکے عنوان سے رقم کی۔ اسے Penguinنے شائع کیا ہے۔ کچھ عرصہ سے آپ ترکیہ میں مقیم ہیں اور میڈیا کے بین الاقوامی میدانوں میں اپنی ذہانت‘ علم اور تجربے کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
میری خوش قسمتی کہ سید افتخار گیلانی میرے کالموں کے مندرجات کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران‘ اور جنگ کے بعد میں نے ”پاکستانیت‘‘ کے ضمن میں کئی کالم لکھے۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ محض ایک واہمہ ہے کہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی طاقت ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اقلیت ہی رہتے۔ 22 مئی 2025ء کو ”الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں‘‘ کے عنوان سے میری تحریر شائع ہوئی۔ اس کی تائید میں جناب افتخار گیلانی نے جو کچھ کہا وہ انہی کی زبانی سنیے۔ ”آپ کے آج کے کالم کے حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جولائی 2001ء میں آگرہ کی سربراہی کانفرنس کو کَور کرنے کے بعد میں دہلی واپس آ چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دو پاکستانی صحافی پریس کلب کے گیٹ پر پریشان کھڑے تھے۔ یہ کراچی سے تھے۔ ایک ٹائم میگزین کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسرا بی بی سی اردو سروس کی۔ کسی دوست نے انہیں سوزوکی کار دی تھی مگر ڈرائیور کو دہلی کے راستوں سے شناسائی نہ تھی۔ انہیں پی آئی اے کے دفتر جانا تھا۔ کسی کو کوئی آئیڈیا نہ تھا کہ یہ دفتر کہاں ہے۔ ابھی راستے بتانے والی گوگل کی خاتون ظہور پذیر نہ ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ میں نے انہیں مدد کی پیشکش کی کہ کناٹ پلیس میں واقع پی آئی اے کے دفتر تک لے جاتا ہوں؛ چنانچہ میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے یہ دونوں (پاکستانی صحافی) پاکستان اور قائداعظم کو خوب برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا مسئلہ پی آئی اے کے ساتھ تھا مگر غصہ پاکستان کے قیام اور قائداعظم پر نکال رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان میں سے ایک قائداعظم کا نام بھی بگاڑ رہا تھا۔ ہم پی آئی اے کے دفتر پہنچ گئے تو میں اُن سے مخاطب ہوا کہ ٹھیک ہے ہندوستان کی تقسیم بہترین آپشن نہ تھا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنا مشکل ہے۔ اور میں تو کشمیری ہونے کی وجہ سے ان مشکلات کا پہلا شکار ہوں۔ تقسیم نہ ہوتی تو سب کچھ ٹھیک رہتا۔ مگر ایک چیز نہ ہوتی۔ دونوں پاکستانی صحافی متجسس ہو کر مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ بنتا تو تم ٹائم میگزین اور بی بی سی کی نمائندگی نہ کر رہے ہوتے۔ تمہاری جگہ ایل کے ایڈوانی کی بیٹی پر تھیبا (Pratiba) ایڈوانی ان اداروں کی نمائندہ ہوتی اور تم اس کے ماتحت کام کر رہے ہوتے۔ (ایڈوانی کی بیٹی بھی صحافی ہے)۔ دونوں پاکستانی صحافی خاموش ہو گئے۔ اُن میں اتنا اخلاق نہ تھا کہ مجھے واپس پریس کلب چھڑوا دیتے۔ مجھے بارش میں شرابور واپس آنا پڑا‘‘۔
اس کے بعد افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ (مقبوضہ) کشمیر میں مسلمان آبادی کے اعتبار سے 68 فیصد ہیں۔ کُل ضلع مجسٹریٹ 20 ہیں‘ جن میں سے صرف چھ مسلمان ہیں۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے افسروں کی تعداد 58 ہے جن میں سے مسلمان افسر صرف 11 ہیں! ماتحت افسروں کی تعداد 523 ہے جن میں سے مسلمان صرف 220 ہیں۔ 66 پولیس افسروں میں سے مسلمان پولیس افسر صرف سات ہیں۔ فہرست بہت طویل ہے اور یہ اعداد و شمار پرانے نہیں‘ گزشتہ سال کے ہیں۔
آپ نے جناب افتخار گیلانی کے دیے ہوئے اعداد و شمار دیکھ لیے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ملازمتوں میں‘ خاص طور پر سول سروسز میں ان کی تعداد برائے نام ہے۔ پاکستان نہ بنتا تو پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بنگال اور بلوچستان میں حالات مختلف نہ ہوتے۔ ایسا نہ ہوتا تو کلکتہ یونیورسٹی کی موجودگی میں ڈھاکہ یونیورسٹی نہ بنانا پڑتی جسے ہندو تمسخر سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک بھارت میں امورِ خارجہ کے 35سیکرٹری ہو گزرے ہیں۔ ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ سیکرٹری خزانہ 20 ہو گزرے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری‘ اجے سیٹھ اکیسواں سیکرٹری خزانہ ہے۔ کوئی ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی آسام میں ہے یعنی 34.22 فیصد۔ تقسیم سے لے کر اب تک گورنروں کی کل تعداد 34 ہوئی ہے۔ ان میں سے صرف تین گورنر مسلمان رہے ہیں۔ آسام کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست دیکھ لیجیے۔ جس آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد سے زیادہ ہے وہاں 1950ء سے لے کر آج تک‘ یعنی 75 برسوں میں صرف ایک‘ جی ہاں صرف ایک چیف منسٹر مسلمان گزری ہے۔ انورہ تیمور‘ جو واحد مسلم اور واحد خاتون چیف منسٹر تھی۔ مغربی بنگال میں مسلم آبادی 27 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک کُل 23 گورنر ہو گزرے ہیں جن میں سے تین مسلمان گورنر ہوئے ہیں (سید نور الحسن دو بار اور اخلاق الرحمان قدوائی ایک بار)۔ 27 فیصد مسلم آبادی والی اس ریاست میں 75 برسوں کے دوران ایک وزیراعلیٰ بھی مسلمان نہیں ہو گزرا!! کیرالہ کی ریاست 1956ء میں وجود میں آئی۔ اس میں مسلم آبادی 26 فیصد ہے۔ 70 برسوں میں صرف ایک مسلمان کو وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا۔
پاکستان کے محفوظ ماحول میں مزے سے بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمان بہت بڑی طاقت ہوتے۔ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس صورت میں کچھ بھی نہ ملتا۔ جو مسلمان اس وقت بنگلہ دیش اور پاکستان میں رہ رہے ہیں ان کی حالت بھی وہی ہوتی جو آج بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ قائداعظم کی یہ بات بہت گہری تھی کہ ہمارے اور ہندوؤں کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ ہمارے ہیرو ان کے نزدیک وِلن ہیں اور ان کے وِلن ہماری نظر میں ہیرو! ان کے نزدیک شیوا جی ہیرو ہے اور افضل خان وِلن۔ ہم شیوا جی کو وِلن کہتے ہیں اور افضل خان کو ہیرو!! جنوری میں دہلی میں یوم جمہوریہ کے سلسلے میں پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ ہر ریاست کا اپنا فلوٹ ہوتا ہے جو پریڈ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی دس گیارہ سال پہلے کی بات ہے۔ جنوبی ریاست کرناٹک نے اس پریڈ میں ٹیپو سلطان کے مجسمے کی نمائش کی تھی۔ پورے بھارت میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر برپا ہونے والی لڑائی میں بہت سے بھارتیوں نے سلطان کو قومی ہیرو قرار دیا مگر مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ نہیں معلوم اس کے بعد کرناٹک نے یہ عمل جاری رکھا یا ترک کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں