عمران یعقوب خان
آپ نے بجٹ سنا! دیکھ بھی لیا ہو گا۔ یہ تخمینہ بھی لگا لیا ہو گا کہ کس کو کیا ملا! یہ اندازے بھی قائم کر لیے ہوں گے کہ اگلے مالی سال میں مالی اور معاشی لحاظ سے سانس لینا کچھ آسان ہو سکے گا یا نہیں؟
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بڑے پُراعتماد نظر آئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ہر ممکن ریلیف دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے برآمدات پر مبنی معیشت کو ترجیح دینی ہے۔ وزیر خزانہ نے زرعی شعبے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ہم نے کھاد اور زرعی ادویہ پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا‘ یہ سٹرکچرل بینچ مارک تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس چھوٹ کے جتنے نظام ہیں انہیں ختم کیا جانا ہے مگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق ہم نے آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس نہ لگانے پر قائل کیا۔ یہاں زرعی شعبے کا خصوصی طور پر ذکر اس لیے کیا گیا کہ ملکی جی ڈی پی میں اس شعبے کا کردار کم وبیش 25فیصد کے لگ بھگ ہے؛ چنانچہ زرعی شعبے کے لیے مقررہ اہداف اور تیار کیے گئے منصوبے بھی بجٹ کا رجحان جاننے کا ایک پیمانہ ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں عام آدمی پر کسی قسم کا اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا جبکہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے تنخواہوں میں اضافہ اور ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اب بجٹ پر دو الگ الگ آرا پیش کی جا رہی ہیں جبکہ معاشی ماہرین کے تبصرے بجٹ کا ایک تیسرا پہلو اجاگر کر رہے ہیں۔ حکومتی عہدیداران اسے ایک متوازن بجٹ قرار دیتے ہوئے ملک اور عوام کے لیے نہایت مفید ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ اپوزیشن کا زاویہ نظر اس سے الگ بلکہ بالکل الٹ ہے۔ اپوزیشن کی نظر میں یہ ایک ظالمانہ بجٹ ہے اور اس سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں سلمان اکرم راجہ‘ سینیٹر شبلی فراز اور بیرسٹر سیف نے وفاقی بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غریب طبقے پر بوجھ بڑھانے اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والا بجٹ قرار دیا اور کہا کہ یہ بجٹ غریب کو مزید غریب اور امیر کو امیر تر بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو فارم 47 کی طرز پر محض دکھاوے کا ریلیف دیا گیا ہے۔
یہ بحث تو ہر سال ہی ہوتی ہے اور آخر میں یہ ہوتا ہے کہ اسمبلی سے بجٹ پاس ہو جاتا ہے‘ لاگو بھی ہو جاتا ہے اور سال بھر اس پر عمل درآمد بھی ہوتا رہتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بجٹ میں معاشی اور اقتصادی حوالوں سے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں وہ پورے ہو سکیں گے یا نہیں؟ یہ سوال ذہن میں اس لیے آیا کہ بجٹ سے ایک روز قبل جاری کردہ اقتصادی سروے رپورٹ میں جاری مالی سال کے مقرر کردہ بہت سے اہداف پورے نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ منگل کے روز پیش کردہ بجٹ تو ویسے بھی خسارے کا بجٹ ہے‘ یعنی آمدنی کم خرچہ زیادہ والا معاملہ ہے۔ آمدنی کے جن اندازوں کو پیش نظر رکھ کر بجٹ بنایا گیا ہے وہ اگر پورے نہ ہوئے‘ یعنی متعلقہ مدَات سے مطلوبہ رقوم میسر نہ آئیں تو خسارے کا بجٹ کیا رنگ لائے گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے تو بجٹ پیش کرنے کے اگلے روز ہی ضمنی بجٹ کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سوا سالہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی کچھ کم ہوئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی اتنی کم نہیں ہوئی‘ جتنی ہونی چاہیے تھی یا جتنی اعداد و شمار میں ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ چھ دہائیوں کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اب بھی روزمرہ استعمال کی بیشتر چیزیں عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ پھر پچھلے کچھ عرصے میں حکومت کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ قومی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور اب یہ ٹیک آف کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ جب اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں تو لامحالہ عوام یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ معیشت میں بہتری کے اثرات ان تک بھی پہنچیں گے اور اس حوالے سے نظریں سب سے زیادہ سالانہ وفاقی اور صوبائی بجٹوں پر مرکوز ہوتی ہیں اور حالیہ بجٹ پر بھی عوام کی نظریں مرکوز تھیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کی توقعات پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ حالیہ دنوں میں روٹی کی قیمت میں کچھ کمی کی گئی ہے اور بجٹ میں تجویز کردہ کچھ اقدامات کے نتیجے میں آئندہ سبزیوں اور دالوں کے نرخ کچھ نیچے آ جانے کی توقع بھی پیدا ہوئی ہے لیکن کیا یہ کافی ہے؟ بجلی اور گیس کے بل بھی عام آدمی کے ماہانہ بجٹ کا حصہ ہوتے ہیں اور توانائی کے مذکورہ دونوں ذرائع کے نرخوں میں کمی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔
گزشتہ برس بجلی کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھا دی گئی تھیں کہ عام آدمی کی چیخیں نکل گئیں۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات کے نتیجے میں بجلی دو چار روپے سستی تو ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حکومتی فیصلے کا بھی عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا کیونکہ بجلی کے جو بل چند ماہ پہلے تک دو چار ہزار روپے تک آ رہے تھے‘ وہ اب بیس‘ تیس بلکہ چالیس اور پچاس ہزار روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ گیس کے جو بل‘ جو سال پہلے تک چار پانچ سو روپے ہوتے تھے‘ وہ اب چار پانچ ہزار روپے آنے لگے ہیں۔ عام آدمی جب یوٹیلیٹی بل ادا کرتا ہے تو اس کی جیب تقریباً خالی ہو جاتی ہے اور اس کے لیے مہینے کے باقی اخراجات پورے کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جب گیس اور بجلی مہنگی ہوں گی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان تمام اشیا کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی‘ جن کی تیاری کے کسی بھی مرحلے میں توانائی کے ان دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک ذریعے کا استعمال ہوتا ہے۔ توانائی مہنگی ہونے سے مختلف پروڈکٹس کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوتا ہے‘ لامحالہ اس کا بوجھ بھی عام آدمی ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک توانائی کے ذرائع کے نرخوں میں واضح کمی نہیں کی جاتی اس وقت تک عام آدمی کو حقیقی ریلیف نہیں مل سکتا۔ بجائے اس کے کہ بجٹ میں گیس‘ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی کا اعلان کیا جاتا‘ پٹرولیم پر کاربن لیوی عائد کر دی گئی ہے اور لیوی کی حد بھی اب حکومتی صوابدید پر منحصر ہے۔ جب پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو اس کا نتیجہ مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کی صورت میں سامنے آئے گا اور عوام کی خواہشوں‘ امنگوں اور توقعات کو حسرتوں میں تبدیل کر دے گا۔ پچھلے کچھ عرصے میں حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کے متعدد اعلانات سننے میں آئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت بجٹ میں بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کا اعلان کر دیتی اور عام آدمی یہ سوچ کر سکھ کا سانس لے لیتا کہ اب ہر ماہ بجلی کا بل آٹھ‘ دس ہزار روپے سے زیادہ نہیں آئے گا۔
حکومت کی جانب سے بجٹ اچھا ہونے کے دعوے اپنی جگہ‘ اپوزیشن کی جانب سے بجٹ کے عوام کش ہونے کے نعرے اپنی جگہ‘ معاشی ماہرین کی جانب سے بجٹ کے اعداد وشمار کو لے کر کیے جانے والی تبصرے اور پیش گوئیاں بھی اپنی جگہ‘ عوام کو بجٹ کے عوام دوست ہونے کا یقین صرف اس وقت آئے گا جب انہیں آسانی سے نوکریاں ملیں گی‘ اشیائے خور ونوش ان کی قوتِ خرید کے اندر آ جائیں گی اور ان کے لیے زندگی گزارنا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔
