آدابِ غلامی

رسول بخش رئیس
ہم جو کچھ ہیں اور جو ہمارے شخصی اور اجتماعی رویے ہیں‘ وہ کسی بھی معاشرے کے طاقت کے نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ اس بارے میں مزید شرح کی ضرورت نہیں کہ حکمران طبقات کے ہاتھ ہی میں طاقت کے سب وسائل مرکوز ہوتے ہیں۔ جمہوریت ہو یا کوئی نام نہاد جمہوری ڈھانچہ‘ اور انتخابات فارمی ہوں یا غیر فارمی‘ مقابلہ ہمارے جیسے نیم نو آبادی‘ جاگیرداری نوعیت کے ممالک میں ایک مخصوص طبقے کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ یہاں کئی تضادات ہماری تاریخ کے حوالے سے پیدا ہو چکے ہیں‘ جن کی وجہ سے روایتی سیاسی گھرانوں‘ جو کبھی زمانے میں سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں اور میدان میں اتارے گئے نئے سیاسی کرداروں کی تابعداری کا مرکز تبدیل ہو چکا ہے۔ پہلا تضاد تو جمہوریت کے الاپ‘ نعرے بازی‘ جلسہ جلوسی رنگ ڈھنگ‘ اور اندر اندر کاروبارِ سیاست کا بھاؤ تاؤ طے کرکے اپنی حصہ داری کو قائم رکھنے کی روایت ہے۔ پہلے ذرا توازن کچھ اور تھا‘ آج کچھ اور ہے۔ سب سے بڑے سیاسی تضاد کی بات کرنے کا وقت اب گزر چکا ہے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ ہم آپ کو تاریخ کی پرانی کتابوں اور اُبھرتے گرتے کرداروں کی طرف اشارہ کرکے یہ عرض کریں کہ کوئی بھی نظام اگر تضادات کا شکار ہو‘ تو معاشرے کی اخلاقیات‘ سیاسی کلچر اور اہم کردار اس کے منفی اثرات سے نہیں بچ سکتے۔ پہلی بات تو ذہن میں رکھیں کہ تضادات کے ساتھ اجتماعی سیاسی زندگی ہو یا شخصی‘ عذاب سے کم نہیں۔ صرف وضاحت کیلئے اتنا کہنا ضروری ہے کہ تضاد بنیادی طور پر سچائی اور جھوٹ کا ٹکراؤ ہے‘ اور اگر اس معنی خیز لفظ کو مزید پھیلا کر دیکھیں تو سراسر منافقت کا دوسرا نام ہے۔ کہنا کچھ‘ ظاہر میں کچھ‘ پندو نصائح کچھ اور طرزِ عمل اس کے بالکل الٹ۔ پاکیزہ‘ پُرامن‘ اور صاف ستھری زندگی کا پہلا اصول جو ہمارے خرمند گرو زمانہ قدیم سے آج تک بتاتے آئے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ظاہر اور باطن سفید نئے نکور کپڑے کے دونوں اطراف کی طرح ایک جیسا ہو؛ نہ کوئی داغ‘ نہ دھبہ‘ نہ رنگ‘ نہ روغن‘ اپنی فطری حالت میں دکھائی دے۔ آپ اسے مثالیت پسندی سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ لیکن عمومی طور پر جہاں ماضی اور حال میں اوپر کا نظام تضادات مٹا کر شفافیت اور جواب دہی پیدا کرے‘ تو لوگوں کا اخلاقی معیار اور عام طرزِ عمل بھی آپ کو مثالی نظر آئے گا۔
ہمارے اعلیٰ طبقات کی اخلاقیات کا بگاڑ ان کی بے لگام خواہشوں‘ اقتدار کی ہوس‘ ایک لمبے عرصے سے ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور ان کے ہاتھوں میں بے پناہ دولت کا ارتکاز ہے‘ جن کے مناظر ہر ملک کے اندر اور بیرونِ ملک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم چونکہ کمزور ہیں‘ اس لیے مان لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے‘ مگر مغربی دنیا ہو یا ہمارے پسماندہ مشرقی عوام‘ ان کا خیال ہے کہ یہ ہاتھ کی صفائی ہے۔ اس موضوع پر پوری دنیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا اور حکمران طبقات کے ایسے کارناموں کی داستانیں تاریخ کا ایک ایسا حصہ بن چکی ہیں‘ جو رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔ اس کاروباری نظام نے ایک بہت بڑا طفیلی طبقہ ہمارے جیسے ملکوں میں پیدا کر دیا ہے جو قومی زندگی کے ہر میدان میں موجود ہے۔ ہم نے بہت کچھ اپنی زندگی میں دیکھا ہے اور تواتر سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ غالب‘ کچھ فیض صاحب اور کچھ حبیب جالب کو پڑھ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ پُرآشوب زمانوں میں وہ بھی تو تھے جنہوں نے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے سے صاف انکار کر دیا۔ آج ہر شعبۂ زندگی میں شعبدہ باز‘ سیاسی فنکار ہیں‘ اور وہی جو تصویری دنیا میں معتبر ٹھہرے ہیں‘ اور پھر دانشوری کے گھوڑوں پر سجے سجائے شاہ سوار‘ سب کی باتیں سن کر اور پڑھ کر جنگلوں کے ویرانوں کی طرف بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے۔
وہ رویہ جو حکمران طبقات کی پہچان رہا ہے‘ اب وہ پورے معاشرے کی شناخت بن چکا ہے۔ جس کا جو بس چلتا ہے‘ اپنی جیب بھرنے اور دیکھا دیکھی کے نمائشی کلچر کی مسابقت میں سب کچھ کر گزرتا ہے کہ اخلاقی پستی کا اب کس کس حوالے سے ذکر کریں کہ کہیں دودھ لیتے وقت سوال کرنا تو ناگزیر ہو چکا ہے کہ اس میں ملاوٹ تو نہیں؟ اگرچہ ہمیں پتا بھی ہوتا ہے کہ جواب وہی ہوگا جو آپ کو ملتا ہے۔ تضاد تو یہ ایسے انسان کی زندگی میں پیدا ہوگا کہ رہی سہی سماجی اقدار کا بھرم رکھنے کی خاطر جھوٹ اور فریب کاری کے سہاروں کے بغیر گزارا ناممکن ہو گا۔ اب تو ہمیں بڑے بڑے نامی گرامی خواتین و حضرات کے کرداروں کو دیکھ کر کوئی افسوس نہیں ہوتا‘ صرف ایک خیال دل میں اٹکا رہتا ہے کہ آخر ہم انسان سود وزیاں کے احساس سے کیسے محروم ہو جاتے ہیں؟ سیانے کہتے ہیں کہ ہوس اندھا کر دیتی ہے۔ آج اور ابھی کی دنیا میں رہنے والے دور کا کیوں سوچیں گے؟
دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نارمل معاشرے کی صفات کمزور کر رہے ہیں۔ خوف ہے کہ اگر یہ نظام یونہی جبر‘ تضادات اور ہیرا پھیری کی سیاست سے چلتا رہا‘ تو جو نمونے آج سکہ رائج الوقت ہیں‘ وہ آنے والے وقتوں میں نشانِ عبرت کے بجائے مثال نہ بن جائیں۔ طفیلی طبقات نے ہمارے اس دور میں انہیں رنگ وروغن لگا کر نہ جانے کیسے کیسے عبقری کرداروں میں پیش کیا ہے‘ مگر تاریخ کا اپنا جبر ہے۔ طفیلی گماشتے اپنے اپنے آقاؤں کے اقتدار کا سورج ڈوبتے ہی یادوں کے اُفق پر داغ نما دھبوں کی طرح رہ جاتے ہیں۔
بات دہرانے کے لیے معذرت خواہ ہوں کہ اخلاقی‘ سماجی اور معاشی تضادات سیاسی نظاموں کے مسائل سے جنم لیتے ہیں‘ جہاں انصاف‘ قانون اور عوام کی حاکمیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آج کے جمہوری نظاموں میں جو قدرے روشنی کے لیے کچھ کھڑکیاں کھلی رکھتے ہیں‘ اپنی روح برقرار رکھتے ہیں۔ جہاں مکمل تاریکی چھا جائے‘ وہاں کسی کو کیا سجھائی دے گا؟ اور آپ پردوں پر وہ تصویر دیکھیں گے جو آپ کو وہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں آپ جمہوریت کہیں یا کوئی دوسرا نظام‘ اندرونی تضادات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اب تو دور ہی بالکل مختلف ہے‘ سب فرق مٹ چکے ہیں۔ جمہوریت اور اس کے متبادل نظام‘ یا ویسے دوسرے نظاموں کو وہ کچھ کہنے کے لیے‘ جو وہ تھے‘ کسی زمانے میں آوازیں اٹھتی تھیں‘ اب وہ ہمت نہیں رہی۔ اگرچہ مزاحمت کی روایت ابھی زندہ ہے‘ اور اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے زبان اور اظہار میں علامات‘ اشاروں اور معنویت کے پرانے گر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہم بار بار کہتے چلے آئے ہیں کہ تاریخ کے پرانے چہرے دیکھیں تو آج کے حکمرانوں کی پہچان میں آپ کو آسانی ہو گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم سب نے اگر آدابِ غلامی کے اصولوں کو پلو سے باندھ لیا ہے تو پھر تقدیر کے قاضی کے فتوے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاریخ کا ایک اور سبق بھی ہے کہ روشنی کی سب شمعیں کوئی سٹالن اور کوئی ہٹلر بھی گُل نہ کر سکا‘ اور ایک وقت آیا‘ پھر کئی شمعیں روشن ہوئیں اور تاریکیوں کے بادل چَھٹ گئے۔ وہ شمعیں پُرامن مزاحمت کی تھیں‘ جو شاعری‘ تخلیقی ادب‘ تاریخ نویسی اور سماجی مکالموں کی صورت روشن رہیں۔ بے شک آج کا بڑا میدان گماشتوں کے قبضے میں ہے‘ مگر کہیں کوئی درویش مفکر‘ کہیں نامعلوم شاعر‘ کہیں نوجوان ادیب اور کہیں کسی نئی تحریک کے آثار نمایاں ہوتے رہتے ہیں کہ آزادی آدابِ غلامی سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں