ایران پر حملہ

خورشید ندیم
مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیہ بدل رہا ہے۔ ایران پر اسرائیل کا حملہ‘ اس کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہے۔
پہلے مرحلے میں حماس اور حزب اللہ ہدف تھے۔ دوسرے مرحلے میں ایران کی ریاست کو نشانہ بنایا گیا جس کی سرحدوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ نے بتایا ہے کہ امریکہ کواس حملے کا پہلے سے علم تھا۔ علمِ سیاسیات کا مبتدی بھی جانتا ہے کہ امریکی مشورے اور تائید کے بغیر اسرائیل کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھانا ممکن نہیں تھا۔ ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے خلاف امریکہ یقینی طور پر اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ اسرائیل کو بلا شک وشبہ یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
امریکہ نے یہ طے کر لیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیہ تبدیل ہو گا اور تاریخ بھی۔ یہ اب کوئی راز نہیں۔ دو دن پہلے اسرائیل میں امریکی سفیر نے یہ کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل اب قصۂ پارینہ ہے۔ امریکہ اس مؤقف سے دستبردار ہو چکا۔ فلسطینیوں کو اب کسی مسلم ملک میں جا آباد ہونا ہو گا۔ بین السطور بتا دیا گیا ہے کہ سارا فلسطین اب اسرائیل ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دور میں‘ جب امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا تھا تو یہ زبانِ حال سے اسی منصوبے کا اعلان تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا حصہ مانتا ہے۔ یہ بات اب کھل کر کہہ دی گئی ہے۔ اس منصوبے کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔ ایران پر حملہ اگلا قدم ہے۔
اس منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کردوں کا مسئلہ بھی اب ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے۔ شام میں ایک ایسی حکومت قائم ہو گئی ہے جو بین الاقوامی سیاسی بندوبست سے ہم آہنگ ہے۔ ترکیہ نے بھی امریکہ کو زبانِ حال سے یہ پیغام دے دیا کہ اگر اسے کردوں کی مزاحمت سے آزاد کر دیا جائے تو وہ بھی اس بندبست کو قبول کر لے گا۔ ترکیہ نے فلسطینیوں کے خلاف بدترین مظالم کے باوجود‘ ابھی تک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کو برقرار رکھا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ کردوں کا مسئلہ بھی اب ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے گا۔ شام سے پہلے عراق میں جو حکومت قائم ہوئی‘ اسے بھی امریکی تائید حاصل ہے۔ اس طرح اس خطے میں اب ایران کے علاوہ کوئی دوسری قوت نہیں جو اس نئے بندوبست کے خلاف ہو۔
کیا مسلمان اس منصوبے کو روک سکتے تھے؟ یہ وہ سوال ہے جسے اٹھانا‘ مسلم دنیا میں مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہاں عقل وخرد کو ایک مدت سے فیصلہ سازی اور بحث ومباحثے میں شریک نہیں کیا جاتا۔ جذبات کی حکمرانی ہے اور اگر کوئی انہیں چیلنج کرے تو اپنا نام غداروں کی فہرست میں لکھوانے کے لیے تیار ہو جائے۔ یہ سوال خود احتسابی کی دعوت ہے اور ہمیں اسی سے گریز ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا کہ علامہ اقبال کی نصیحت کے مطابق عشق کو بے خطر آگ میں کود پڑنا چاہیے۔ ان کا یہ شعر مگر نہیں سنایا جاتا:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
تاریخ نے مسلم قیادت کو بارہا مواقع فراہم کیے کہ وہ نئے عالمی سیاسی بندوبست کو سمجھے اور اس میں شریک ہو جائے تاکہ اس کے مفادات کا ممکن حد تک تحفظ ہو سکے۔ کسی نظام کی مزاحمت اسی وقت ثمربار ہو سکتی ہے جب آپ اس کو ختم کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ بصورتِ دیگر اس وقت کا انتظار اور اس کے لیے تیاری کی جاتی ہے جب مزاحمت نتیجہ خیز ہو۔ ہم نے انتظار کیا نہ تیاری۔ ہم ہر موقع کھوتے گئے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جس تہران کو ہم عالمِ مشرق کا جنیوا بنانے کا خواب دیکھتے تھے‘ وہ اغیار کے میزائلوں کی زد میں ہے اور ہم اسے بچانے پر قادر نہیں۔
یہ پیراگراف میں نے اپنی تسلی کے لیے لکھا ہے۔ اسے نظر انداز کیجیے اور یہ دیکھیے کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے؟ پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ سب سے پہلے تو ہمیں ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا چاہیے۔ حکومت اور سینیٹ نے یہ کام کر دیا۔ ایران کے حقِ دفاع کو قبول کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ایران اگر اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اسے ہماری سفارتی تائید حاصل ہو گی۔ یہی مؤقف تمام مسلم ممالک کا ہونا چاہیے۔ یہ بعد کا مرحلہ ہے کہ ایران اپنے اس حق کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام فورمز پر‘ او آئی سی کی سطح پر یہ بات کہی جا نی چاہیے کہ دفاع ایران کا حق ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں یہ دیکھا جائے کہ ایران کا جوابی اقدام کیا ہونا چاہیے۔ ایران کو اس حوالے سے تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے مسلم ممالک کو اعتماد میں لینا بہتر ہو گا۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو بھی ایران سے اظہارِ یکجہتی کے لیے فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے۔ پاکستانی سینیٹ کی طرز پر سب کا متفقہ مؤقف سامنے آنا چاہیے۔ امریکہ کو اس بارے میں متنبہ کرنا ہو گا کہ اگر اس نوعیت کی جارحیت کو بھی گوارا کیا گیا تو پھر دنیا میں کوئی نظم باقی نہیں رہے گا۔ اسرائیل کو امریکہ کی تائید حاصل ہے لیکن اس کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ وہ اس جنگ کا حصہ نہیں ہے۔
ایرانی قیادت کوبھی اس پر سوچنا ہو گا کہ انقلاب کے بعد اس نے جس حکمتِ عملی کو اپنایا‘ اس نے ایرانی عوام کو کیا دیا؟ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ پہنچا؟ ‘انتقالِ انقلاب‘ کے ساتھ ‘شیطانِ کبیر‘ کے خلاف قوم کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا گیا‘ جس کا ایک نتیجہ عراق ایران کی آٹھ سال پر محیط جنگ تھی اور دوسری یہ جنگ ہے جس نے ایران کو مزید مضمحل کر دیا ہے۔ مشرقِ سطیٰ میں اس کے اثرات مزید سمٹ گئے ہیں۔ ایران کو اب اس حالتِ جنگ سے نکل کر ساری توجہ اپنی تعمیر پر دینا ہو گی۔ وہ ایٹمی قوت بننا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی حکمتِ عملی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پاکستان نے دنیا کی مخالفت کے باوجود اگر یہ ہدف حاصل کیا تو اس کے لیے کس صبر اور حکمت سے کام لیا۔ ایران کو بھی صبر اور حکمت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ پاکستان اگر جذباتی لوگوں کو اپنا امام بناتا تو شاید ایٹمی قوت نہ بن سکتا۔ مذہبی پیشوائیت اور سیاسی قیادت میں فرق بھی ایران کی قیادت کو سمجھنا ہوگا۔
جنگ تباہی لاتی ہے لیکن اس کے ساتھ مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ موقع ہے کہ ایران عالمِ اسلام سے قریب آئے اور او آئی سی بھی یہ اعلان کرے کہ کسی مسلم ملک کے خلاف اس طرح کا حملہ پورے عالمِ اسلام کے خلاف حملہ تصور ہو گا۔ اسرائیل نے ہر حد کو پامال کیا ہے۔ مسلمان کیا حد میں رہ کر اپنا دفاع نہیں کر سکتے؟ اس سے پہلے جو کچھ ہوا‘ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دو طرفہ تھا۔ بارہ جون کی شب اسرائیل نے جو کچھ کیا وہ سراسر جارحیت ہے۔ اس کے خلاف مسلمانوں کو یک زبان ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے راکھ کے اس ڈھیر میں اتنی چنگاری تو ہونی چاہیے۔ ہم دنیا سے جنگ نہ کریں مگر اپنے وجود کا اظہار تو کریں۔ اہم سوال یہ ہے کہ نئے مشرقِ وسطیٰ کی طرف اس پیش قدمی کوکیا ہم روک سکتے ہیں؟ یا کم از کم مؤخر کر سکتے ہیں؟ جب ہر مسلم ریاست کو اپنی دفاع کی فکر ہو گی تو پھر وہ عالمِ اسلام کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کیسے کرے گی؟ یہ سوالات ہمیں اُس خود احتسابی کی دعوت دیتے ہیں‘ جن سے ہمیں گریز ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں