ایک مشورے کا سوال ہے

خالد مسعود خان
بات پرانی ہے مگر اتنی پرانی نہیں کہ بھول جاؤں‘ یہی کوئی اڑھائی تین عشرے پہلے ایک محفل میں بیٹھا تھا اور وہاں ملک میں اخلاقی اقدار کی کسمپرسی پر بات ہو رہی تھی۔ ایک دوست کا خیال تھا کہ عزت بہرحال پیسے سے زیادہ اہمیت کی حامل اور کہیں اعلیٰ و ارفع شے ہے۔ کئی اور دوست بھی اس نظریے کے حمایتی تھے۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اخلاقیات اور رائج اقدار کو دیکھیں تو اب یہ بات اپنی اہمیت اور سچائی کھو چکی ہے کہ عزت پیسے سے بڑھ کر ہے۔ اس ملک میں اب عزت بھی اسی کی ہے جس کے پاس پیسہ ہے۔ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ اس ملک میں عزت نہ صرف پیسے سے ہے بلکہ اب تو آپ پیسے سے عزت بالکل اسی طرح خرید سکتے ہیں جس طرح بازار سے باقی اجناس خرید کر لا سکتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تب اپنے اس دوست کی باتوں سے سو فیصد اتفاق نہ تھا مگر آج میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ ہمارا معاشرتی انحطاط اس درجہ گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے کہ اب عزت کا معیار پیسہ اور اس کے ساتھ ساتھ طاقت اور عہدہ وغیرہ بن گئے ہیں۔ خالی خولی عزت اب نہ کسی کام کی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ”عزت‘‘ ہے۔
اس ملک میں کاغذی طور پر فرد کو ایک ہی عزت حاصل ہے اور وہ آئینی عزت ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ صرف اور صرف کاغذی عزت ہے جو آئین کے کاغذوں میں درج تو ہے مگر نہ اس کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس کو کوئی مانتا ہے۔ اس ملک میں اصلی عزت وہ ہے جو اس ملک کی اشرافیہ نے اپنے لیے خود طے کر رکھی ہے۔ زور آوروں نے‘ طاقتوروں نے آئین میں دی گئی فرد کی عزت‘ توقیر‘ برابری اور حقوق سے اوپر اپنے لیے عزت کی ایسی چادر تان رکھی ہے جس کے نیچے عام آدمی کی نہ کوئی عزت ہے‘ نہ کوئی توقیر ہے اور نہ ہی برابری کے حقوق کی کوئی اوقات ہے۔ اس ملک میں عزت‘ وسائل‘ حقوق اور سہولتیں صرف ان لوگوں اور اداروں کو حاصل ہیں جو اپنے لیے خود قانون وضع کرنے اور اس کو نافذ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ باقی سب کچھ مذاق سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔
اپنے لیے از خود حقوق‘ تحفظ اور نفاذ کا اختیار رکھنے والوں نے ادارہ جاتی اور شخصی طاقت سے اپنے لیے قانون کے نام پر ایسا خیمہ تان رکھا ہے جس پر کسی آئینی برابری‘ فرد کی عزت اور شرفِ انسانی جیسی شے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی نے خود پر تنقید اور انگلی اٹھانے کو جرم قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو قانونی تحفظ دے کر اور کسی نے بلا کسی تحریری قانون کے خود کو ہر قسم کی جوابدہی سے پاک قرار دے کر سارا قصہ ہی پاک کر دیا ہے۔ عزت اور توہین کا دائرہ اتنا تنگ ہے کہ اس کے ڈر سے کسی کا نام بھی نہیں لکھ سکتے۔’مزاجِ یار‘ سے متصادم بات لکھ دیں یا کہہ دیں تو توہین کے قانون کا اطلاق ہو جاتا ہے۔ وہ تو ابھی شکر ہے کہ ریٹائرڈ زور آوروں کے بارے میں لکھنے پر توہین کا قانون تھوڑی نرمی دکھاتا ہے وگرنہ حاضر سروس کے بارے لکھنا تو اپنی شامت کو آواز دینا ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عزت فرد کی نہیں عہدے کی ہے۔ اگر عہدے سے ہٹ جائیں تو پھر اچھے بھلے بندے کی عزت ایک ڈونٹ برابر ہو کر رہ جاتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ جب تک انصاف کی کرسی پر متمکن رہے ان کے نزدیک دنیا بھر میں صرف ایک ایماندار آدمی تھا اور وہ آدمی وہ خود تھے۔ اس لیے وہ ہر اس شخص کو جسے آئینِ پاکستان برابری کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے جب چاہتے تھے بے عزت کر دیتے تھے‘ حالانکہ قانون کے تحت آپ کسی کو سزا تو دے سکتے ہیں لیکن بے عزت یا بے توقیر نہیں کر سکتے مگر ان کی اَنا کو تب تک تسکین نہیں ملتی تھی جب تک وہ کسی سائل کو بے ایمان یا خائن قرار دیتے ہوئے بے عزت نہیں کر لیتے تھے۔ یعنی بندہ انصاف لینے جاتا تھا اور بے عزت ہو کر آتا تھا اور انہی پر کیا موقوف‘ اس قبیل کے اور بھی کئی نام ہیں۔ شکر ہے کہ ابھی ریٹائر جج پر تنقید کرنے سے توہینِ عدالت کا قانون حرکت میں نہیں آتا وگرنہ یہ عاجز اول تو لکھ ہی نہ سکتا اور اگر لکھ لیتا تو مزید لکھنے کے قابل نہ رہتا۔
مجھے یہ ساری باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ یہ عاجز آج صبح پھر اسی توہین آمیز اور حقارت بھرے سلوک کا شکار ہوا ہے جس سے ہر چند روز بعد پالا پڑتا رہتا ہے۔ نو بجنے میں چند منٹ پہلے پیچھے سے ہارن مارتا اور نیلی بتی گھماتا ہوا پولیس کا ڈالا تیز رفتاری کی نئی منزلوں سے متعارف کراتا ہوا آ رہا تھا۔ آج کی نیلی بتی‘ ہارن اور سائرن یوں سمجھیں کہ گئے زمانے کے بادشاہوں کی سواری کے موقع پر ہٹو بچو‘ باادب با ملاحظہ ہو شیار‘ بادشاہ سلامت کی سواری آ رہی ہے جیسے اعلانات کا متبادل ہے۔ چلیں جی آپ کو بڑی جلدی ہے گزر جائیں۔ کسی کی مجال ہے کہ روک سکے یا رکاوٹ ڈال سکے۔ اصل توہین اور عزتِ نفس کو طمانچہ تب لگتا ہے جب ڈالا نزدیک سے گزرتا ہے تو اس میں بیٹھے ہوئے اہلکار نیچے لٹک لٹک کر نہایت ہی توہین آمیز اور حقارت بھرے انداز میں پہلے سے ایک طرف ہٹنے والے کیڑے مکوڑے ٹائپ انسانوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے ایک طرف ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ اس دم ان کی آنکھوں سے دوسروں کیلئے جو تحقیر دکھائی دیتی ہے وہ ناقابلِ برداشت ہوتی ہے مگر برداشت کرنی پڑتی ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا جج صاحب کیلئے راستہ خالی کروانا بہت ضروری ہے؟ کیا یہ سواری اس طرح باعزت طریقے سے دوسروں کو بے عزت کیے بغیر نہیں گزر سکتی جس طرح دنیا بھر میں اس عہدے پر فائز لوگ گزرتے ہیں؟ کیا اس قافلے کی رفتار عام ٹریفک کی رفتار کے برابر نہیں ہو سکتی؟ کیا معزز سواری گھر سے دفتر اور دفتر سے واپس گھر جاتے ہوئے نارمل رفتار سے نہیں چل سکتی؟ کیا نو بجے دفتر پہنچنے کیلئے گھر سے چند منٹ پہلے روانہ نہیں ہوا جا سکتا؟ کیا یہ مناسب نہیں کہ سڑک پر ساری جلدی مچانے کے بجائے تھوڑی جلدی گھر میں کر لی جائے تاکہ راستے میں افراتفری کی ضرورت پیش نہ آئے۔
قبلہ شاہ جی گزشتہ دو تین ہفتوں سے ملتان میں موجود نہیں تھے اس لیے بہت سی باتیں تشنہ رہ گئیں اور کافی سارے معاملات پر ان کی رہنمائی‘ مشوروں اور تجاویز سے یہ عاجز محروم رہ گیا۔ گزشتہ روز ایک بار پھر سڑک پر خود کو بے عزت محسوس کرنے کے بعد اپنے غم و غصہ کا اظہار شاہ جی سے کیا تو وہ کہنے لگے: بندۂ خدا! تم تو ایسے بات کر رہے ہو جیسے تم پہلی بار سڑک پر ذلیل ہوئے ہو۔ حکمرانوں کے گزرتے ہوئے‘ وزیروں کے گزرتے ہوئے‘ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے گزرتے ہوئے‘ کرکٹ ٹیموں کے گزرتے ہوئے‘ حتیٰ کہ بعض ٹھکن قسم کے ایس ایچ او حضرات کے گزرتے ہوئے بھی زندگی میں تم لاکھوں بار نہ سہی تو کم از کم ہزاروں بار اس طرح ذلیل ہو چکے ہو۔ شرم والا بندہ ہو تو اب تک اس توہین‘ ذلت اور بے عزتی کا عادی ہو جائے مگر تم جو کہ ہر چوتھے دن اس سلوک سے گزرتے ہو مگر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے اب بھی توہین اور ذلت محسوس کرتے ہو۔ تمہیں اس بات پر از خود شرم آنی چاہیے۔
پھر میری شکل پر بجے ہوئے بارہ دیکھ کر شاہ جی کو تھوڑا ترس آیا۔ کہنے لگے: عدالتوں میں مقدمے سالہا سال چلتے ہیں۔ لوگوں کو جلدی انصاف نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ محفوظ فیصلے کئی کئی ماہ سائلوں کو انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتے ہیں ایسے میں منصف عدالت جاتے ہوئے بھی جلدی نہ کریں تو کیا ہر کام میں دیر کر دیں؟ پھر کہنے لگے :مجھے اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ہے مگر تمہیں سناؤں گا نہیں۔ اگر میں نے سنا دیا تو تم لکھ دو گے۔ اور اگر چھپ گیا تو تم اندر ہو جاؤ گے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اس عمر میں اندر ہو جاؤ اور اندر جا کر مجھے بددعائیں دو۔ تم نیلی بتی والے ڈالے کا راستہ یا وقت تو تبدیل نہیں کر سکتے بہتر ہے تم صبح گھر سے نکلنے کا وقت یا راستہ بدل لو۔ قارئین آپ بتائیں! میں ان دونوں میں سے کیا بدلوں؟ ایک مشورے کا سوال ہے بابا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں