بے سمت مقروض بجٹ

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

پہلے ذرا بجٹ پر ایک نظر ڈال لیں۔ ہمارا ہر بجٹ اعداد وشمار کا ایک ایسا گورکھ دھندا ہوتا ہے‘ جو سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اس لیے اس گورکھ دھندے کو نظر انداز کرتے ہوئے بجٹ کی موٹی موٹی باتیں سن لیں۔ اس بجٹ کے نتیجے میں مزید مہنگائی ہو گی‘ مزید ٹیکس لگیں گے۔ سولر پینل 18 فیصد ٹیکس کے بعد مزید مہنگے ہو جائیں گے۔ عوامی مفاد کا تو شاید بجٹ میں ایک کام بھی نہیں مگر پراپرٹی کی خرید وفروخت پر ڈیوٹی کا خاتمہ اور وِد ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کا اقدام مثبت ہے۔ گزشتہ ڈھائی تین برس سے پراپرٹی کی خرید وفروخت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی طرح دفاعی بجٹ میں 20فیصد اضافہ ایک مستحسن قدم ہے۔ مسلح افواج کے بجٹ میں اضافے کیلئے تو عوام اپنی جند جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔ خاص طور پر بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اس اضافے کی ضرورت بھی تھی۔ بجٹ کے اگلے روز وزیر خزانہ نے پریس بریفنگ میں سوالوں کے جو جوابات دیے‘ وہ متضاد بھی ہیں اور مزاح نگاری کا شاہکار بھی۔ وزیر خزانہ نے فرمایا کہ سب کچھ قرض لے کر کر رہے ہیں۔ تنخواہوں میں دس فیصد اور پنشن میں سات فیصد اضافہ قرض کی رقم سے کیا گیا۔ ماہرین نے اس اضافے کا حساب کتاب لگایا تو ان کے بقول یہ چار فیصد سے زیادہ نہیں بنتا‘ اس لیے انہوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
دوسری طرف اسی سانس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد سے زائد اضافے کا جواز یہ پیش کیا کہ اُن کی تنخواہ 2016ء کے بعد بڑھی ہے۔ تقریباً اسی شرح سے وزیروں اور ارکینِ اسمبلی کے معاوضوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ان اراکینِ اسمبلی اور سپیکر وچیئرمین سینیٹ کے اور بیسیوں ذرائع آمدنی ہیں جبکہ بیچارے تنخواہ داروں کا ملازمت کے علاوہ کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں ہوتا۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ ٹیکس کی صورت میں سب سے زیادہ قربانی تنخواہ دار ہی پیش کرتا ہے۔ پریس بریفنگ میں وزیر خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پرچون فروش ٹیکس دیتے ہیں نہ ہی تھوک فروش۔ اُن سے حکومت قوت کے زور پر ٹیکس وصول نہیں کرے گی تو پھر ہمیں 500 ارب تک کے اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ نزلہ بر عضو ضعیف کے مصداق پھر یہ اضافی بوجھ بھی بیچارے عوام کی دہری کمر پر ہی لادا جائے گا۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا:
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
جناب خواجہ آصف رندِ بادہ خوار تو نہیں مگر کبھی کبھی موج میں آ کر اُن کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے۔ سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ کو اڑھائی لاکھ سے بڑھا کر 13 لاکھ روپے کرنے پر انہوں نے کہا کہ یہ ناقابلِ فہم اضافہ کھلی کھلی ”مالی فحاشی‘‘ ہے۔پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ ”چور نالوں پنڈ کاہلی‘‘ یعنی چور سے زیادہ مالِ مسروقہ کو رفوچکر ہونے کی جلدی ہوتی ہے۔ ابھی ایوان میں سولر پینل پر مجوزہ 18فیصد ٹیکس کی تجویز پیش ہوئی ہے اور ادھر سولر پینلز کے امپورٹرز اور ڈیلروں نے ان کی قیمت فروخت 18فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دی ہے۔ کتنی ناقابلِ یقین پالیسیاں ہیں اس حکومت کی۔ پہلے ان کا کہنا تھا کہ عوام زیادہ سولر لگائیں تاکہ بجلی کا مسئلہ حل ہو اور بجلی کی قیمتیں کم ہو سکیں۔ اب حکومت خود ہی لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے کہ خبردار! سولر نہ لگاؤ۔ اس سے پہلے جو لوگ سولر لگا چکے ہیں اُن سے حکومت اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہایت کم نرخوں پر بجلی پروڈکشن کا ایک حصہ خریدتی اور باقی رد کر دیتی ہیں۔
اب ذرا بجٹ کے تناظر میں پاکستان کا معاشی منظر نامہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ 1988ء سے اب تک ہم آئی ایم ایف کے قرضوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ ہمارے حکمران ہر بار کہتے ہیں کہ کشکولِ گدائی توڑ دیں گے مگر پھر اگلی بار اُن کے ہاتھ میں ایک نہیں‘ دو دو کشکول ہوتے ہیں۔ یہ منحوس دائرہ اسی طرح جاری رہے گا جب تک ہم اپنے طرزِ حکومت و معیشت میں بنیادی تبدیلی کا فیصلہ نہیں کرتے۔ عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہر وہ شخص غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جائے گا جس کی یومیہ آمدنی چار ڈالر سے کم ہو۔ پاکستان میں جو شخص لگ بھگ 1200 روپے یومیہ نہیں کما پاتا‘ وہ خطِ غربت سے نیچے تصور ہوگا۔ یوں اس وقت پاکستان کے تقریباً 45فیصد یعنی بارہ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح29 فیصد ہو چکی ہے۔ جب ملک میں بیروزگاری اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہو تو پھر لوگ روزگار کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ زراعت کے شعبے کی بدحالی آخری سطح پر پہنچ چکی ہے‘ دیہات میں مزید 50فیصد مزارعین اور کم ملکیت والے لوگ غربت کا شکار ہو چکے۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے جس طرح چھوٹے زمینداروں کی مارکیٹ میں لائی ہوئی گندم کو اونے پونے خریدا اور انہیں اتنی رقم بھی نہیں دی جتنی اُن کی لاگت آئی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس برس گندم کی فصل 9.8فیصد کم ہوئی ہے۔ اب حکومت انتہائی ناقص گندم بیرونِ ملک سے مہنگے نرخوں پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے خریدے گی۔ فیکٹری ورکرز کے پاس بھی نوکریاں نہیں کیونکہ بہت سی فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور نئی فیکٹریاں اور مِلیں اب ایک خواب و خیال بن چکی ہیں۔ 2022ء میں جس پاکستانی کی ماہانہ آمدنی اور قوتِ خرید پچاس ہزار تھی‘ آج اس کی قوتِ خرید صرف 21 ہزار روپے رہ گئی ہے۔ گویا تین برس میں اس کی قوتِ خرید میں 58فیصد کمی واقع ہو چکی۔ وفاقی حکومت ہی نہیں‘ پنجاب حکومت بھی اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران 35 ارب ڈالر کی ترسیل کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے مگر کوئی خدا کا بندہ یہ نہیں بتاتا کہ حکومت اُن کیلئے کیا کر رہی ہے۔
دو تین بار پہلے بھی پوری تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے سرمائے سے اُن کیلئے سمال انڈسٹریز کے نہایت نفع بخش پروجیکٹ لگائے جا سکتے ہیں۔ میں اپنے جیسی معیشت والے برادر ملک مصر کی مثال دے چکا ہوں کہ وہاں اوورسیز مصریوں سے ہر ماہ ایک مختصر رقم لے کر اُن کیلئے ”معاش‘‘ یعنی مستقل پنشن کے جاری نظام میں اُن کی شمولیت رجسٹر کر لی جاتی ہے۔ یوں جب وہ واپس مصر آتے ہیں تو انہیں بیروزگاری اور بے بسی کا سامنا نہیں کرتا پڑتا۔ مگر ہماری حکومتیں ایسے کسی تکلف کی قائل نہیں۔
وزیر خزانہ نے ‘بزبانِ شاعر‘ خود بتایا کہ پہلے سٹیل اور خوردنی تیل کو جو ٹیکس چھوٹ حاصل تھی اسے واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر بجٹ پیش کرنے سے چند منٹ پہلے انہیں کہا گیا کہ یہ استثنا جاری رہنے دیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت خود کفالت‘ سرمایہ کاری‘ روزگار کے وسیع تر مواقع وغیرہ کی واضح ڈائریکشن طے کرتی‘ اپنے ہی خطے کے ترقی یافتہ ملکوں کی مثالوں سے فائدہ اٹھاتی مگر ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ علاقے کے دوسرے ملکوں میں شرح خواندگی قلانچیں بھرتی جا رہی ہے ہمارے ہاں کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم مزید نوجوانوں کو تعلیم اور فنی تربیت دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ آئی ایم ایف نے قرضے کی جتنی کڑی شرائط اس حکومت سے منوائی ہیں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برس سے پاکستان کی معیشت انتہائی ”عدم استحکام‘‘ کا شکار ہے اور مقروض معیشت کے غیریب شہری غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں