’مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاک-بھارت خونریزی نہیں رک پائے گی‘

مجاہد بریلوی

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر جنگ بندی کا اعلان 31 دسمبر 1948ء کی نصف شب ہوا اور پھر جنگ بندی کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک ایسی خون ریز کشیدگی کا آغاز ہوا جس سے سب سے زیادہ متاثر دونوں جانب کے کشمیری عوام ہی ہوئے۔

غیر منقسم برصغیر پاک و ہند میں جہاں ریاست جموں کشمیر میں 80 فیصد مسلمان آباد تھے وہیں آبادی اور جغرافیائی حد بندی کے اعتبار سے زیادہ حصہ سیز فائر کے نتیجے میں بھارتی تسلط میں چلا گیا جبکہ محدود وسائل سے قبائلی اور کشمیری مجاہدین نے بھاری جانی قربانیاں دے کر جو علاقہ آزاد کروایا، وہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر سے آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک تہائی یا اس سے زیادہ بھی کم ہے۔

جنرل اکبر خان کتاب ’پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت‘ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم جیتی ہوئی جنگ ہار گئے اور بھارت اپنی فوجی طاقت سے وہ تمام ہدف حاصل کر چکا تھا تو اسے مزید جنگ جاری رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جنگ بندی سے قبل ہم یہ ضرور چاہتے تھے کہ حساس علاقے دشمن کے ہاتھ جانے نہ پائیں اور بھارت کو اپنے وعدے پر قائم رکھنے کے لیے یا اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ ایسے علاقے ہمارے پاس رہیں جنہیں ہم ٹریپ کے طور پر استعمال کر سکیں جبکہ جنگ بندی کے نتیجے میں بھارت وہ سب کچھ حاصل کرچکا تھا جس کے لیے اس نے کشمیر جنگ کا آغاز کیا۔

جنرل اکبر خان لکھتے ہیں اب ہمارے پاس ایسا کوئی علاقہ یا مقام نہ تھا جس میں بھارت کی دلچسپی ہو اور وہ ہمارے قبضے میں ہوتا تاکہ اگر بھارت رائے شماری میں انکار کرے تو ہم اس جگہ یا علاقے کو دباؤ کے لیے استعمال کر سکیں۔ جنرل اکبر خان چاہے کتنے ہی متنازع کیوں نہ ہوں، پہلی تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

جنرل اکبر خان اپنی تصنیف میں بےچارگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’جب میں پنڈی واپس آیا تو میری ملاقات وزیراعظم لیاقت علی خان سے 3 ماہ بعد ہوئی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ اس وقت مشورہ دینے کے لیے مجھ سے بڑے افسر موجود تھے (ان کا اشارہ جنرل ایوب خان کی طرف تھا) مگر میں یہ سوال اس اعتبار سے کررہا تھا کہ اول تو اس پوری جنگ میں، میں ابتدا ہی سے شریک رہا۔ دوم اس علاقے کی جغرافیائی صورت حال سے وزیر اعظم لیاقت علی خان ہی نہیں بلکہ اس وقت کی فوجی قیادت کو بھی بہتر مشورہ دے سکتا تھا‘۔

جنرل اکبر خان لکھتے ہیں ’3 ماہ بعد وزیر اعظم نے مجھے بلایا۔ ہماری یہ ملاقات 2 گھنٹے جاری رہی جس کے بعد بھی 6 ماہ کے عرصے میں جتنی بار بھی وزیر اعظم سے ملا میں نے محسوس کیا کہ میں ان سے بہت دور ہوتا جا رہا ہوں، میری اور ان کی سوچ کے درمیان بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے‘۔

گزشتہ کالم میں، میں نے تفصیل سے پنڈی سازش کیس کا ذکر کیا تھا۔ انگریز کے پروردہ جنرل ایوب خان اس بات سے آگاہ تھے کہ جب تک جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی افسران کو جو کشمیر میں لڑے تھے راستے سے نہیں ہٹایا جاتا تب تک وہ فوج اور ریاست پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکیں گے۔ مارچ 1951ء میں پنڈی سازش کیس اور اکتوبر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وطن عزیز میں جو کھیل کھیلا گیا وہ افسوس ناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔

1951ء سے اکتوبر 1958ء کے مارشل لا تک وطن عزیز میں 6 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ کوئی چند مہینوں کے لیے اور کوئی مشکل سے سال دو سال اپنی کرسی سنبھال سکے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، وہ وزرائے اعظم ہیں جو تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہوچکے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے اس جملے نے ان دنوں بڑی شہرت پائی کہ ’میں اتنی شیروانی نہیں بدلتا جتنے عرصے میں پاکستان میں وزیر اعظم تبدیل ہوجاتے ہیں‘۔

ادھر دلچسپ بات دیکھیے کہ تقسیم ہند سے پہلے تحریک آزادی کشمیر کے مقبول ترین رہنما شیخ عبداللہ جنہوں نے آزادی سے قبل بھی طویل اسیری جھیلی تھی اور جو تقسیم کے وقت بھی جیل میں تھے، دسمبر 1948ء میں جواہر لال نہرو کی سحر انگیز شخصیت کے حصار میں آکر نہ صرف رہا ہو جاتے ہیں بلکہ بھارتی زیرِتسلط کشمیر ان کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ میں جب مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں آتا ہے تو تاریخ کا المیہ دیکھیے کہ کشمیری رہنما شیخ عبداللہ اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندے کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ شیخ عبداللہ اپنی کتاب ’آتشِ چنار‘ میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ سمندر پار جانے کا پہلا موقع تھا‘۔

شیخ عبداللہ جو کشمیری سیاست کے ایک بڑے رہنما بلکہ کھلاڑی تھے اعتراف کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں وہ پاکستان کے مستقل مندوب سر ظفراللہ خان کے جال میں پھنس گئے تھے کیونکہ، ’یہ سر ظفراللہ کی چال کا نتیجہ تھا کہ مجھ سے اچانک پہلے تقریر کروا کر میری پوزیشن سلامتی کونسل میں گرا دی گئی‘۔

شیخ مزید لکھتے ہیں کہ ان کی گھنٹے بھر سے زائد کی تقریر کے دوران سر ظفراللہ مستقل مداخلت کرتے رہے۔ ظفراللہ خان نے ایک موقع پر جملہ کسا کہ ’میں جواہرلال نہرو کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہوں، میں نے جواب دیا کہ مجھے جواہر لال کی دوستی پر فخر ہے۔ جواہر لال کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے اور خون خون ہے اور پانی پانی، اس حقیقت کے باوجود اگر کشمیر کے عوام اور جواہرلال کی دوستی میں کسی ایک چیز کا انتخاب کرنے کی نوبت آئی تو میں کشمیری عوام کے مفاد کو جواہر لال کی دوستی کی وجہ سے قربان نہیں کروں گا‘۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ مہاراجا کشمیر کے خلاف کشمیر کی آزادی کے لیے شیخ عبداللہ نے بے پناہ قربانیاں دیں مگر جب کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو کے ہاتھوں شیخ عبداللہ استعمال ہوچکے تو پھر یہ وزیر اعظم نہرو ہی تھے جنہوں نے نیشنل کانفرنس ہی کو تقسیم نہیں کیا بلکہ شیخ عبداللہ کو وزارت عظمیٰ سے نکال کر طویل اسیری میں ڈال دیا۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ شیخ عبداللہ کشمیر کی دوسری اور تیسری نسل کی نظر میں ہمیشہ ایک ہیرو سے زیادہ ولن کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔

تحریک آزادی کشمیر کا یہ ایک المناک خون ریز باب تھا جسے یہاں میں سمیٹتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں مسئلہ کشمیر کی گونج محض سلامتی کونسل کے ایوانوں میں ہی نہیں گونجتی رہی بلکہ بھارت کے زیرِتسلط کشمیر میں کشمیری عوام نے جو بے پناہ قربانیاں دیں۔ ایک لاکھ سے زائد شہادتیں ہوئیں اس سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور آج تک ان کی قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

میں یہاں 1965ء کی جنگ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا جس کے نتیجے میں تاشقند معاہدہ ہوا، پھر 1971ء کی جنگ جس میں ملک تو دولخت ہوا اور پھر بقیہ پاکستان کے حکمران بننے والے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد شملہ معاہدہ بھی ہوا جبکہ کارگل کی جنگ تو محض اس وقت کے حکمرانوں کا ایک کھیل تھی۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ جب ہم پہلی تحریک آزادی کشمیر کی جنگ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے سری نگر کی بتیاں دیکھنے کے قریب پہنچ چکے تھے اور پھر اقوام متحدہ میں بھی سر ظفراللہ خان کی سفارتی ذہانت سے رائے شماری کے دو ٹوک فیصلے کو اکثریت سے منوا چکے تھے تو بد قسمتی دیکھیں کہ 77 سال بعد آج بھی ہم وہیں اسی مقام پر کھڑے ہیں۔

کشمیر کا تنازع جب تک دونوں ممالک کے درمیان رہے گا تب تک پاکستان اور بھارت کے کروڑوں عوام کے سروں پر جنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے جس کی جھلک ہم نے ایک مہینے پہلے ہی دیکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں