خیبرپختونخوا۔۔ شکوہ یا خود انحصاری

رشید صافی
خیبرپختونخوا کا مالی سال 2025-26ء کیلئے پیش کیا گیا 2119ارب روپے کا بجٹ گزشتہ سال کے 1754ارب روپے کے بجٹ س حجم میں بڑاہے مگر صوبے کے تقریباً چار کروڑ عوام کو درپیش مسائل اور پسماندگی کے تناظر میں یہ اب بھی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اعداد و شمار کے پردے میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ صوبے کے دور درازعلاقوں کی برسوں کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے یہ بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2119 ارب روپے کا بجٹ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بجٹ 157ارب روپے کے متوقع سرپلس کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس میں کل اخراجات کا تخمینہ 1962ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے سالانہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ وفاق سے ملنے والے 1506ارب روپے کے محصولات پر منحصر ہے۔ ان محصولات میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والا حصہ سب سے نمایاں ہے جو کہ صوبوں کو وفاق کے جمع کردہ ٹیکسوں کی آمدن سے ملنے والے ایک طے شدہ تناسب پر مشتمل ہے ۔ اگر وفاق کی آمدنی میں کمی واقع ہو یا این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی آجائے تو صوبوں کے مالی وسائل براہِ راست متاثر ہوتے ہیں جس سے صوبائی ترقیاتی منصوبے اور انتظامی اخراجات غیریقینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بجٹ میں خیبرپختونخوا کی ٹیکس آمدن 129ارب روپے بتائی گئی ہے ‘ بقیہ رقم دیگر ذرائع سے حاصل ہو گی۔ یہ صورتحال صوبے کو اپنے ترقیاتی اہداف حاصل کرنے اور عوام کو خدمات فراہم کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے کیونکہ اسے اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے مسلسل وفاق کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ وفاق پر انحصار کم کرنے کیلئے صوبائی سطح پر محصولات کو بڑھانا اور نئے مالیاتی ذرائع تلاش کرنا ضروری ہے۔خیبر پختونخوا کے بجٹ میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کیلئے 1415 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صوبائی بجٹ کا تقریباً دوتہائی حصہ صرف تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں ہی صرف ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ترقیاتی کاموں‘ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر‘ تعلیم‘ صحت اور دیگر سماجی شعبوں کیلئے قلیل رقم باقی بچتی ہے۔ جب بجٹ کا ایک بڑا حصہ انتظامی اخراجات کی نذر ہو جائے تو عوام کو درپیش مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ محدود مالی گنجائش میں صوبے کے پسماندہ علاقوں اور ضم شدہ اضلاع کی کی ترقی اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو جیسے اہم چیلنجز سے کیونکر نمٹا جاسکتا ہے؟آمدنی کے وسائل میں اضافہ کئے بغیر بجٹ خانہ پُری کے سوا کچھ نہیں۔ خیبر پختونخوا کے چار کروڑ عوام بہتر زندگی اور مواقع کی تلاش میں ہیں مگر یہ بجٹ ان کی اُمیدوں پر پورا اترنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔
خیبرپختونخوا قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور درجنوں ایسے مقامات ہیں جو اپنی دلکشی سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ سیاحت صوبے کی معیشت میں اضافے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتی ہے‘ مگران مقامات تک رسائی آج ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ راستوں کی دشواری اور ناپختہ ہونے کے سبب سیاحوں کی بڑی تعداد ان علاقوں کا رُخ کرنے سے کتراتی ہے۔ تقریباً 13سال قبل خان صاحب عوامی جلسوں میں جن راستوں کی مخدوش صورتحال پر اظہارِ افسوس کیا کرتے تھے‘ وہ راستے آج بھی ویسے کے ویسے ہیں۔ اس طویل عرصے کے دوران صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی ہے مگر اس نے سیاحت کے فروغ کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کی آمدنی میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟ خیبرپختونخوا پولیس کے بجٹ میں اضافہ نہ صرف یہ کہ دیرینہ مطالبہ اور وقت کی ضرورت تھی بلکہ یہ اضافہ ناگزیر بھی تھا‘ ہم نے انہی سطور میں پولیس کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف صف اول کے کردار کو متعدد بار سراہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے‘ اس لیے کہ صوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ صوبے میں امن کیلئے ضروری ہے کہ پولیس کو جدید سازوسامان اور ہتھیاروں سے لیس کیا جائے تاکہ وہ امن و امان کو بآسانی برقرار رکھ سکے۔
خیبرپختونخوا کے بجٹ میں دیگر صوبوں سے 42.74ارب روپے کی آمدن کی امید ظاہر کی گئی ہے‘ تاہم ماضی کا تجربہ اس حوالے سے خاصی شکایات پر مبنی رہا ہے۔ صوبے کو اکثر یہ گلہ رہا ہے کہ دیگر صوبوں نے اس سے مالی معاونت کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔ یہ صورتحال خیبرپختونخوا کیلئے مالیاتی غیریقینی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دیگر صوبوں سے مالی معاونت کا وعدہ ضم شدہ قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کی ترقی اور بحالی سے متعلق تھا۔ 2018ء میں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے وقت وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں نے مل کر 10سالہ ترقیاتی پروگرام کے تحت ان اضلاع کی تعمیر و ترقی کیلئے بھاری مالی وسائل فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبے کے معمول کے حصے سے تین فیصد اضافی حصہ ضم شدہ اضلاع کی ترقی کیلئے مختص کرنا بھی شامل تھا۔ اس کا مقصد ان پسماندہ علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانا اور انضمام کے عمل کو کامیاب بنانا تھا۔ خیبرپختونخوا حکومت کی شکایات کے مطابق اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ خیبرپختونخوا حکومت سمجھتی ہے کہ فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہوئے اور حکومت کو مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ عدم ادائیگی نہ صرف ضم شدہ اضلاع کی ترقی کو متاثر کرتی ہے بلکہ صوبائی بجٹ پر بھی اضافی بوجھ ڈالتی ہے کیونکہ صوبے کو اپنے محدود وسائل سے ان علاقوں کی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ ان تین فیصد فنڈز کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور دیگر صوبوں سے بروقت اور مکمل ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ دیگر صوبوں کا مؤقف ہے کہ یہ تعاون وقتی تھا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 42ارب روپے کی اس امید کو بھی ماضی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ وفاق اور دیگر صوبوں کا بروقت اور مکمل تعاون خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے اہم ہے۔ خیبرپختونخوا اس وقت مالیاتی دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ وہی ہے جو ماضی میں اختیار کیا جاتا رہا ہے‘ یعنی فنڈز کی عدم دستیابی پر شکوہ کرنا اور احتجاج کی دھمکیاں۔ یہ طریقہ کار وقتی دباؤ تو پیدا کر سکتا ہے لیکن صوبے کو پائیدار مالی استحکام فراہم نہیں کر سکتا۔ دوسرا راستہ تھوڑا کٹھن ہے لیکن خود انحصاری کی جانب گامزن کرسکتا ہے۔ وہ ہے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا۔ اس راستے پر چل کر خیبرپختونخوا وفاق پر انحصار کم کر سکتا ہے اور اپنے وسائل سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو عملی شکل دے سکتا ہے۔ اب یہ فیصلہ صوبے کو کرنا ہے کہ محض شکایات کے دائرے میں گھومتے رہنا ہے یا اپنی معیشت کو مضبوط بنا کر روشن مستقبل کی بنیاد رکھنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں