ایران اور عالمِ اسلام

خورشید ندیم
تادمِ تحریر ایران میدانِ کارزار میں اکیلا کھڑا ہے۔ مسلم ممالک کی سفارتی تائید اسے میسر ہے مگر جب میدان گرم ہوتے ہیں تو پھر تیر وتفنگ اور قوتِ بازو کی ضرورت ہوتی ہے۔ مستقبل قریب میں اس قوت کے میسر آنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین سرگرم ہیں۔ ان کی نصرت سے کوئی نتیجہ نکلتا تو غزہ یوں ویرانے میں تبدیل نہ ہوتا۔
امریکہ اور اس کے حواریوں کے عزائم تو واضح ہیں: اسرائیل کا استحکام اور مزاحمت کا خاتمہ۔ سوال یہ ہے کہ خطے میں رہنے والے اہلِ اسلام کا عزم کیا ہے؟ انفرادی سطح پر قومی ریاستوں کا دفاع یا اجتماعی لائحہ عمل؟ آثار یہی ہیں کہ عربوں کا انتخاب انفرادی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ عرب لیگ موجود ہے مگر غزہ کے معرکے میں اس نے اپنی موجودگی کا کوئی احساس نہیں دلایا۔ ایران کے لیے بھی اس کے جذبات میں کوئی گرمی نہیں۔ اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ عرب ایران کی عملی مدد کو آئیں گے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر پاکستان کے لیے بھی ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ایران کی مدد کے لیے کوئی عملی قدم اٹھائے۔ ہمارا دعویٰ جو بھی ہو‘ پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور اس کے مفادات ان جغرافیائی سرحدوں میں مقید ہیں جو 1947ء میں نئے سیاسی بندوبست نے کھینچ دیں۔ ہم غزہ کے مظلوموں کے لیے اس کے سوا کیا کر سکے کہ ان کے زخموں کی مرہم پٹی کر دیں۔
یہ کوئی خوش کن منظر نہیں مگر ہماری آنکھیں یہی دیکھ رہی ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے پاس مرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کو نشانہ بنایا تو کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔ اس کامیابی نے اسے مزید جارحیت کا حوصلہ دیا اور وہ اب ایران پر چڑھ دوڑا۔ امریکہ اس کے ہم قدم رہا اور اب بھی ہے۔ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ ہی کا ہراول دستہ ہے۔ عدم مزاحمت نے انہیں یہ جرأت دی کہ وہ سرزمینِ فلسطین کو بلا شرکتِ غیرے‘ اسرائیل بنانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ دو سو سال کم وبیش‘ ایسے گزر گئے کہ مسلمانوں کے مقدر میں قسامِ ازل نے کوئی بڑی فتح نہیں لکھی۔ ‘بنیانٌ مرصوص‘ کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے جو اس نے بحیثیت قومی ریاست حاصل کی۔ چین نے اگر مدد کی تو اس لیے نہیں کہ پاکستان امتِ مسلمہ کی نمائندگی کر رہا تھا۔ یہ دو قومی ریاستوں کے باہمی مفادات تھے جنہوں نے انہیں ایک دوسرے کا معاون بنایا۔ اگر کسی اور نے کچھ مدد کی تو وہ بھی فی سبیل اللہ نہیں تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے جوانوں نے اسے مذہبی جو ش وخروش کے ساتھ لڑا اور جذبۂ شہادت کو اپنی قوت بنایا۔ دنیا کا زاویۂ نظر مگر دوسرا تھا۔ ایران اور سعود ی عرب اس معرکے میں بھی ثالث ہی تھے۔ بحیثیت قومی ریاست انہیں اپنے مفادات عزیز تھے۔
اس صورتِ حال میں کسی فوری تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی مسلم ریاست اپنے ‘قومی‘ مفادات کو نظر انداز کر تے ہوئے‘ کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ عملاً یہی ممکن ہے کہ یہ ریاستیں اپنے اپنے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے‘ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جس سے ایران کو اسرائیلی عزائم سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اب تک زیادہ نقصان ایران کا ہوا ہے۔ اسرائیل کا اگر نقصان ہوا ہے تو اسے پورا کرنے کے لیے امریکہ موجود ہے۔ ایران کا ایک نقصان تو ناقابلِ تلافی ہے۔ یہ رجالِ کار کی شہادت ہے۔ رہا مادی زیاں تو اس کی تلافی ممکن ہے؛ اگرچہ وقت طلب ہے۔ اس کے لیے سفارتی سطح پر پیش رفت ضروری ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں بھی توجہ دلائی تھی کہ او آئی سی کا فوری اجلاس لازم ہے۔ سب سے اچھا تو یہ ہوتا کہ اس اجلاس میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا جا تا اور یہ کہا جاتا کہ او آئی سی کے کسی ایک رکن پر حملہ پورے عالمِ اسلام پر حملہ تصور ہو گا۔ حملہ کرنا یا نہ کرنا‘ یہ اگلا مرحلہ ہے مگر ایک مؤقف تو سامنے آتا۔ مجھے اس کا کوئی امکان اس وقت دکھائی نہیں دے رہا۔ وجہ وہی قومی ریاستی مفادات ہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے تو یہ اعلانِ جنگ بالواسطہ امریکہ کے خلاف ہوگا اور ہم اس دشمنی کی تاب نہیں لا سکتے۔ سادہ لفظوں میں ہمارے اس خواب کی سرِدست کوئی تعبیر نہیں کہ امتِ مسلمہ ایک سیاسی وحدت ثابت ہو۔
اس پس منظر میں‘ کیا امریکہ اور اسرائیل خاکم بدہن‘ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے مگر اس کا جواب لازم نہیں کہ صرف اثبات میں ہو۔ امریکہ قانونِ قدرت کے تحت زوال کے راستے پر ہے۔ صدر ٹرمپ کی آمد نے زوال کے اس عمل کو مہمیز دے دی ہے۔ اس کے باوجود یہ عمارت گر تے گرتے وقت لے گی۔ امریکہ کو اس وقت ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اس کے عزائم کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ موجود نہیں۔ روس اس قابل نہیں رہا کہ یہاں مداخلت کر سکے۔ وہ بشار الاسد کو شخصی حیثیت میں بچا سکتا تھا‘ وہ اسے بچا لے گیا۔ یوکرین کی جنگ نے اسے اس قابل نہیں رہنے دیا کہ وہ ایران کو کوئی عسکری معاونت کرے۔ چین کی پالیسی یہ ہے کہ اسے کسی تصادم میں نہیں الجھنا۔ وہ ایران کی اقتصادی بحالی میں تو معاون ہو سکتا ہے‘ عسکری معرکے میں نہیں۔ پاکستان کا معاملہ اور ہے‘ جس پر ایران کو قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ روس یا چین کی اسرائیل سے کوئی دشمنی نہیں۔ اس کے باوجود اگر چین اور روس چاہیں تو سفارتی سطح پر وہ دباؤ پیدا کر سکتے ہیں جو امریکی پیش قدمی کو مؤخر کر دے۔ اگر انہیں او آئی سی کی حمایت بھی مل جائے تو اس سے کچھ آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔
کیا روس اور چین ایسا کریں گے؟ میرا خیال ہے براہِ راست تصادم سے بچتے ہوئے وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس وقت یورپ امریکہ سے خوش نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ بھی حسبِ سابق مشرقِ وسطیٰ میں اس گرم جوشی کے ساتھ امریکہ کا ساتھ نہ دے۔ پھر یورپ کے عوام بھی اسرائیل کے بارے میں اب اچھی رائے نہیں رکھتے۔ جمہوری حکومتیں عوامی جذبات کو ایک حد سے زیادہ نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ عربوں کو بھی یہ اندازہ ہو گا کہ ایک طاقتور اسرائیل کل ان کے لیے کیا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ آسانی سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔
تجزیہ خواہشات کے تابع نہیں ہوتا۔ یہ خوش گمانوں کا کام نہیں۔ بعض اوقات زمینی حقائق ہماری آرزوئوں سے متصادم ہوتے ہیں مگر ان سے صرفِ نظر کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ خوش گمانی سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ ہمیں ان کے اعتراف کے ساتھ ہی حکمتِ عملی تشکیل دینا ہوتی ہے۔ ہماری خواہش تو یہی ہے کہ اسرائیل ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو مگر یہ محض خواہش یا سوشل میڈیا پر اسرائیل کو گالی دینے سے نہیں ہو گا۔ مسلم حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے بھی نہیں ہو گا۔ میدان لگ چکا ہے اور ایران کو اب اس کا سامنا کرنا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس میں ایران کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے۔ خوش گمانیوں کو خبر بنانے سے اسرائیل کے جہاز تباہ نہیں ہوں گے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ کے باوجود‘ فلسطینیوں پر بموں کی برسات جاری ہے؟ یہ اس اعتماد کا اظہار ہے کہ مزاحمت دم توڑ چکی۔ ہمیں اس صورتِ حال کا ادراک کرنا ہے۔ فلسطینیوں کے بعد ایرانیوں کے بہتے لہو کو گلیمرائز کرنے والے اس پر ضرور غور کریں۔ فلسطینیوں اور ایرانیوں کا اصل دوست وہ ہے جو ان کی زندگی اور ترقی کا طالب ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں