نئی جنگ اور تاریخ کا نیا باب

رسول بخش رئیس
گزشتہ دو سالوں میں مشرقِ وسطیٰ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں‘ اگر کسی کو ان کا ادراک ہو پاتا تو شاید ایران پر مسلط اسرائیلی جنگ کو روکنے کی کوئی پیش بندی ممکن ہو سکتی۔ اب یہ کہنا مناسب نہیں کہ خطے کے بدلتے یا بگڑتے ہوئے حالات کا جائزہ ٹھنڈے دل سے کہاں لیا جا سکتا تھا۔ پہلے جو ہو چکا اس کا ذکر کرنا سیاق وسباق کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں کوئی دوسری رائے اب بھی کوئی رکھتا ہے‘ تو وہ جانے اور اس کے تعصبات‘ جن کا علاج کوئی حکیم کر سکا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت جو ہم روزانہ کی بنیاد پر غزہ میں دیکھ رہے ہیں‘ صرف ان سے پوشیدہ ہے جو جنگلوں میں زمانۂ قدیم کی زندگی گزارتے ہیں‘ اور ایسی دو جگہیں ہی رہ گئی ہیں‘ ایمیزون کا جنگل اور شمالی قطبی دائرہ۔ سسکتے‘ بلکتے بچوں‘ بے بس مائوں اور ہر عمر کے مردوں اور عورتوں کو غزہ میں جس طرح آگ میں جلتے‘ گولیوں سے چھلنی ہوتے اور بھوک سے مرتے دیکھا ہے‘ دنیا کی تاریخ میں اتنا بڑا ظلم پوری دنیا کے سامنے‘ ایسی بے بسی میں اتنی دیر تک کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس کے محرکات کا دفاع کرنے کی میری نظریاتی پوٹلی میں کوئی گنجائش نہیں‘ مگر جو جوابی کارروائی اسرائیل کی طرف سے اُس کے مغربی اور امریکی حامی ملکوں کی تائید ومعاونت سے ہوئی اور جو ابھی تک جاری ہے‘ اُسے دیکھ کر انسانیت پرستی کے سب مغربی‘ مشرقی فلسفے گلے سڑے بھوسے کے ڈھیر میں دب کر دم توڑ چکے ہیں۔ ہم ہمیشہ لکھتے اور کہتے رہے ہیں کہ زور کے موجودہ ریاستی نظام میں جو سکہ چلتا ہے‘ وہ صرف طاقت کا ہے۔ اگر آپ کے پاس طاقت ہے‘ اس نوع کی دولت کی فراوانی ہے یا اس کا اچھا بندوبست کر کے اپنا کوئی قومی‘ صنفی‘ معاشی نظام پائیدار بنیادوں پر استوار کر لیا ہے تو پھر اس کے مطابق اپنے قومی مفادات کا تعین کریں اور مؤثر طریقے سے انہیں حاصل کریں۔
حقیقت پسندی دوسرے معنوں میں حکمت اور دانش مندی ہی ہے۔ سوچیں‘ جیب میں چند سکے ہیں اور بازار میں جا کر آپ کی خواہش آسمان کو چھونے لگے تو پشیمانی تو ہو گی۔ غزہ فلسطین کا حصہ ہے مگر وہاں اس ٹکڑے میں حماس نے اپنی حکومت مغربی کنارے کی اتھارٹی سے کٹ کر اور مخالفت میں قائم کر رکھی تھی۔ اب تاریخ ہی آگے چل کر بتائے گی‘جب کبھی اس تباہی کے بادل چھٹیں گے اور گرد وغبار نیچے بیٹھے گا کہ فلسطینیوں میں نظریاتی اور سیاسی تقسیم ایک بڑے دشمن کے مقابل میں انہیں کتنا فائدہ پہنچا سکی ہے؟ یہ مسئلہ تمام مسلم ممالک کی سیاسی تحریکوں اور حکمران طبقات کا ہے کہ وہ مغلوں اور اس قسم کے دیگر حکمرانوں کا طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں کہ اپنے سیاسی حریفوں کو تو پہلے راستے سے ہٹائو‘ باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ تنہائی ایسے ہی تو پیدا نہیں ہوتی کہ کوئی حمایت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ غزہ میں جنگ کے اوائل میں دعوے آپ نے سنے اور دیکھے ہوں گے کہ ایران اور اس کے حمایت یافتہ حزب اللہ اور حوثی عسکریت پسند میدان میں کودیں گے۔ کچھ ڈرون انہوں نے روانہ کیے‘ کچھ بحری جہازوں کو بحیرہ احمر میں نقصان پہنچایا اور پھر جو حشر حزب اللہ اور حوثیوں کا ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے ساتھ دو بڑی تبدیلیاں آپ نے لبنان اور شام میں دیکھیں‘ جن کے بارے میں چند سال پہلے سوچنا تک ناممکنات میں سے تھا۔ لبنان سے حزب اللہ کا صفایا دنیا کے سامنے ہوا۔ حماس کی طرح اُن کی مدد کے لیے کوئی لشکر آیا نہ کوئی جنگی جہاز۔ حسن نصر اللہ جیسے عالم فاضل اور مفکر اپنی جان کی قربانی دے کر رخصت ہو گئے۔ شام کی نئی حکومت ایک آندھی اور طوفان کی طرح اٹھی اور اچانک چند دنوں میں اسد خاندان کی بساط لپیٹ کر رکھ دی۔ لبنان اور شام ہوں یا یمن‘ حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے جو آج بھی جاری ہیں‘ خطے کے اہم ممالک کی حمایت اُن کے پیچھے ہے۔ جو کام وہ خود کرنا چاہتے تھے‘ وہ اسرائیل نے کر دیا ہے۔ بیانات کچھ بھی ہوںوہ سب خوش ہیں کہ ایران کے اس علاقے میں پھیلے دست و بازو کاٹ دیے گئے ہیں۔
ایران کی حکمت عملی گزشتہ پینتالیس سالوں سے‘ جب سے اسلامی انقلابی نظام وجود میں آیا ‘ یہ رہی ہے کہ غیر ریاستی حامی تحریکیں ارد گرد کے مسلم ممالک میں قائم کرکے انہیں ایک لیور اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اگر کوئی ملک کسی دوسری ریاست میں ایسے عناصر‘ ان کا نظریاتی رنگ ڈھنگ جو بھی ہو‘ تشکیل دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے تو آپ خود سوچیں وہاں کے حکمرانوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔ ظاہری رکھ رکھائو سفارت کاری میں ہوتا ہے‘ اس پر نہ جائیں‘ اندر سے تو وہ اُن ممالک کی صفوں میں شامل ہو گئے جو ایرانی حکومت کے خلاف رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے بارے میں کچھ عرب ممالک بھی اسرائیل کی طرح فکرمند رہے ہیں۔ ہم تو کچھ ایسی باتوں کے گواہ ہیں کہ ایک زمانے میں اس موضوع پر عالمی کانفرنسوں میں اپنے کچھ عرب ملک کے نمائندوں کو درپردہ‘ نجی محفلوں میں باتیں کرتے سنا ہے۔ ویسے کوئی بھی ادنیٰ سا طالب علم تزویراتی صف بندی کا جائزہ لے کر‘ اگر غیر جانبدار ہے اور معروضی حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ تو نتائج کسی بھی وقت نکال سکتا ہے۔ ایران کی قیادت بھی اس بات کا خوب ادراک رکھتی ہے کہ عرب ممالک اُس کی غیر ریاستی عناصر کے بارے میں پالیسیوں اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ایک اور بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ انقلاب اور اس کے ساتھ وابستہ آزادی‘ خوشحالی اور سکون کی امیدیں وقت کے ساتھ ختم نہیں تو مدہم ضرور ہوئی ہیں۔ گزشتہ دس برسوں سے کہیں زیادہ عرصہ سے ایران کے اندر کئی حکومت مخالف تحریکیں چلیں اور سب کو سختی سے کچل دیا گیا‘ مگر دبائی گئی سب تحریکوں کے خون اور ہڈیوں سے کہیں نہ کہیں دھواں ضرور اٹھتا رہتا ہے‘ اور وقت کے ساتھ کہیں چنگاریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔
اب کیا کہیں کہ اسرائیل کی طرف سے ایران کی فوجی اور ایٹمی پروگرام کی قیادت کو ختم کرنے کی کامیابی اندر سے اس کے دشمنوں کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی ایسی کئی وارداتیں جو عام علم میں ہیں‘ واقع ہو چکی ہیں۔ یہ جنگ اچانک نہیں ہوئی‘ اس کے لیے اسرائیل اور اس کے ظاہری اور خفیہ حلیف ایک عرصہ سے کام کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران دنیا میں تنہا ہے‘ کوئی ملک اس کے ساتھ نہیں۔ یہ جنگ اس نے اپنی استعداد پر لڑنی ہے‘ جو وہ بہادری اور جرأت سے لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی پشت پر دنیا کی طاقتور ریاستیں اور ان کی بے پناہ صنعتی اور دفاعی استعداد ہے۔ اگر ایران اس دوران کوئی کرشماتی کارنامہ سر انجام دے کر چھوٹا موٹا ایٹمی دھماکا کر سکتا تو شاید اسرائیل سوچنے پر مجبور ہوتا۔ مگر اب یہ معدوم امکانات میں سے ہے۔ جنگ تو انہوں نے اسی امکان کو ختم کرنے کے لیے مبینہ طور پر شروع کی ہے‘ اور اسے اس انجام تک لے جانے کے لیے سٹرٹیجک بمباری ہو رہی ہے۔ اگلے چند دن انتہائی اہم ہوں گے۔ اگر ایران اپنی جوابی کارروائی کی استعداد قائم رکھ سکتا ہے اور اس کے حملے اسرائیل پر جاری رہے اور وہاں نقصان ہوتا رہا تو جنگ بندی ہو جائے گی‘ اور اس صورت میں ایران اپنے ایٹمی اثاثوں کو بھی کسی نہ کسی طرح محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ بصورت دیگر‘جس کا خدشہ بڑھ رہا ہے‘ ایران کا دفاعی نظام مفلوج ہو گیا اور جوابی کارروائی جواب دے گئی تو پھر جو ہو گا وہ ایک نیا سیاسی نقشہ ہو گا اور اس کی کیا شکل ہو گی‘ یہ سوچ کر دھیان عراق‘ شام‘ لیبیا اور لبنان کی طرف جاتا ہے۔ ہم تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا!

اپنا تبصرہ بھیجیں