آئو… تماشا دیکھیں!

بابر اعوان
ہم جس دورِ ناپُرساں میں سسک سسک کر رینگ رہے ہیں اُسے ‘عصرِ سنّاٹا‘ کہہ لیں۔ اس زمانے کے مظلوم آہ بھرتے ہیں تو وہ عرش تک جاتی ہے۔ لیکن کرّۂ ارض کے اپنوں کے ہاں مسلسل قبرستان جیسی خاموشی۔
ابھی صرف کشمیر‘ افغانستان‘ عراق‘ لبنان‘ شام‘ لیبیا‘ مینڈانائو‘ میانمار میں خونِ مسلم کی ارزانی تصویرِ تازہ ہے۔ دو سال سے محصور غزہ میں 19 ہزار 800 سے زیادہ معصوم بے گناہ فلسطینی بچے کنول کے وہ پھول ثابت ہوئے جو کھلنے سے پہلے مرجھا گئے‘ بلکہ زندہ نذرِ آتش و آہن ہو گئے۔ غزہ میں ایسا قیامت خیز منظر نامہ برپا ہے جو اس سے پہلے اللہ کی زمین پرکبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایسے میں 56 برادر مسلم ملکوں میں سے کوئی ایک سربراہ‘ جس نے غزہ کے پیاسوں پر پانی کی ایک بوتل‘ ایک نانِ جویں کا ٹکڑا پھینکا ہو؟ چشمِ تصور سے دیکھیں اگر 56 ملکوں کے ہوائی جہاز امدادی سامان غزہ پہ گرانے کیلئے ایک ہی وقت میں پرواز کر کے وہاں پہنچیں تو کیا اسرائیل تیسری عالمی جنگ چھیڑ دے گا؟ 56 ملکوں کے جہاز گرا دے گا؟ میری اُمہ‘ میرے رہبر‘ میرے عالم‘ میرے فاضل‘ میرے معجزے دکھانے والے ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق سارے یہیں ہیں۔ ثابت ہوا ہم سب تماشائی ہیں۔
ہمارے اولو الامر موت سے نہیں ڈرتے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا‘ جرمنی‘ کینیڈا کے گودی بچے اسرائیل کی بات دوسری ہے۔ اسرائیل سے بھی نہیں ڈرتے۔ اگر دونوں باتیں درست ہیں تو پھر ہم اُمہ نہیں‘ تماشا دیکھنے والا گروہ ہیں۔ جمعہ کی صبح تماشاگر‘ جنہوں نے پچھلے دو ہفتے میں 56 کٹھ پتلیاں خاموش کروائیں‘ وہ اس وقت بردار مسلم پڑوسی‘ 1965ء کی جنگ میں ہمارے مددگار ملک‘ ایران پر حملہ آور ہیں۔ ہم برکینا فاسو کے 34 سالہ صدر ابراہیم تراورے جتنے بھی باہمت نہیں‘ جو مغرب کے سامنے ڈٹ کر بات کرتا ہے۔ ایمپریل ازم اور عالمی سرمایہ دار اشرافیہ کے خلاف محض تین سال میں ابراہیم تراورے عالمی آئیکون بن گیا۔ اُسے قتل کرنے کیلئے20 براہِ راست کوششیں ہوئیں لیکن ہر قاتلانہ حملے میں مالکِ ارض وسما نے ابراہیم تراورے کو زندہ رکھنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ اس وقت کرۂ ارض کی آبادی کا 25 فیصد حصہ مسلم اُمّہ کہلاتا ہے۔ ان 205 کروڑ جیتے جاگتے‘ کھاتے پیتے تماشائیوں کیلئے ٹوڈی سرکاروں نے سلامتی کا نام ”احتیاط‘‘ رکھا ہے۔
دوسری جانب ان 205 کروڑ لوگوں کی نمائندگی کے دعویدار‘ نیوز اینکر اور اصلاحی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں: ایران اپنی اصلاح کرے۔ عملی طور پر اس وقت ایران ایک تنہا قوم ہے جو بے سرو سامان سہی مگر پوری دنیا کے سامنے سینہ تان گئی! ایران کا مقابلہ صرف ایک وحشت گر ریاست اسرائیل سے نہیں بلکہ اس کے حامیوں بشمول کئی مسلم ممالک اور تقریباً پوری دنیا میں پھیلے اسرائیل کے سرپرستوں سے ہے۔ اسرائیلی حملے میں ایرانی سینئر فوجی قیادت‘ بہت سے اعلیٰ جوہری سائنسدان اور سویلین شہید ہوئے‘ دفاعی نظام درہم برہم ہوا۔ مگر ایرانی قوم نے بہت کم وقت میں اپنی فوجی طاقت اور فضائی دفاعی نظام بحال کر دکھایا۔ ساتھ ہی ایران نے اسرائیلی تاریخ میں‘ اسرائیلی سرزمین پر بہت بڑے جوابی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ جن کے بارے میں مغربی میڈیا سکتے کے بجائے کومے کی کیفیت میں ہے۔ اسی لیے مغرب کی بڑی ٹی وی سکرینوں پر قبرستان جیسی خاموشی اور ایرانی حملے کی سلیکٹڈ کوریج ہوتی ہے۔ ابھی تک تقریباً 800 بیلسٹک میزائل اور ہائپر سونک میزائل دہشت گردی کے جواب میں اسرائیل پر داغے گئے۔ ایران نے اسرائیل کے 200 سے زیادہ اہداف کو برباد کر دیا۔ ایرانی میزائل حملے روکنے کیلئے دنیا کی تین بڑی فورسز امریکہ‘ برطانیہ اور خود اسرائیل منہ دیکھتے رہ گئے۔ بعض مسلم ملکوں خصوصاً شام کی فضائی حدود میں ان سب کے طیارے ایکٹو ہیں۔ فرانس نے بھی اسرائیل کو اینٹی میزائل سسٹم دیا جس کے باوجود اَن گنت میزائل اسرائیل پر گرے۔ اسرائیلی آئرن ڈوم اور امریکیTHAAD سسٹم سمیت فرانس‘ برطانیہ کے کل سات فضائی دفاعی نظام ایرانی حملوں کے سامنے ناکام ثابت ہوئے۔ ان ملکوں نے اگرچہ بہت سے میزائل ہوا میں مار گرائے مگر بڑی تعداد میں ایرانی میزائل تل ابیب‘ یروشلم‘ جنوبی شہر ڈیمونا‘ انڈسٹریل شہر حیفا سمیت اہم ٹارگٹس پر امپیکٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ ایرانی میزائل نے تل ابیب کے وسط میں کریا کمپائونڈ‘ جہاں اسرائیلی وزارتِ دفاع اور فوجی ہیڈ کواٹر ہیں‘ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تین ایئر بیسز مکمل اور ایک ایئر بیس جزوی طور پر تباہ ہوئی۔ ڈیمونا کی نیوکلیئر تنصیبات پہ بھی میزائل گرے۔ چھپانے کے باجود اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ اور کئی سو زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ تل ابیب سمیت اسرائیل کے کئی علاقے ملبے کا ڈھیر بنے۔ ہائی ویلیو تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ بہت سے اسرائیلی شہروں میں پاور سپلائی معطل ہوئی اور ریڈ الرٹ ایپ کریش کر گئی۔ محدود دفاعی وسائل کے ساتھ ایران کی قوم تنِ تنہا‘ دنیا کی تمام سپر پاورز کے مدمقابل بلاشبہ بہادری اور غیرت سے لڑ رہی ہے۔ وعدہ ٔصادق سوئم کا ترجمہ دو لفظوں میں کافی رہے گا۔ Face Thunder, No Surrender۔ خاموش تماشائی اتنے دبائو میں ہیں کہ ایران پر انٹرنیشنل لاء کے خلاف مسلط یکطرفہ دہشت گردی کی جنگ بندی کیلئے او آئی سی‘ عرب لیگ‘ موتمرِعالمی اسلامی‘رابطہ عالم اسلامی‘ ورلڈ مسلم یوتھ اسمبلی یا کوئی اور مسلم ادارہ یا حکومت اقوامِ متحدہ میں ایران کے حق میں توجہ دلائو نوٹس تک نہیں لا سکی۔ وہاں بھی ایران کو خود یکا وتنہا جانا پڑا۔ مسلم ملکوں کی لابی نہ ہونے کی وجہ سے جنگ بندی کیلئے بلایا گیا سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا۔ آسمان دیکھ رہا ہے‘ تاریخ یاد رکھے گی‘ تماشائی خاموش ہیں۔
فریڈرک گستاؤ ایمل مارٹن بنیادی طور پہ مذہبی رہنما تھے۔ نازی جرمنی کے زمانے میں شہریوں پر بے رحمانہ مظالم کے خلاف اپنی خاموشی پر تاحیات نادم رہے۔ اسی ندامت نے پاسٹر فریڈرک کو جنگوں کے خلاف ایکٹوسٹ بنا دیا چنانچہ وہ وار رزسٹنس انٹرنیشنل فورم پر 1966ء تا 1972ء وائس چیئر رہے۔ ویتنام جنگ کے دوران ہوچی مِن سے ملاقات کر کے ویتنامی مظلوموں کی حمایت کا اعلان کیا۔ پاسٹر نے ظلم کے خلاف تماشائی بننے کا Public confession کیا اور یہ تاریخ ساز لائنیں لکھ کر امر کر دیں۔
First, they came for the socialists, and I did not speak out! Because I was not a socialist. Then they came for the trade unionists, and I did not speak out! Because I was not a trade unionist. Then they came for the Jews, and I did not speak out! Because I was not a Jew. Then they came for me and there was no one left to speak for me.
محترمی ڈاکٹر اسرار احمد نے سالوں پہلے ایران کے بارے میں کہا تھا: ایرانیوں نے شہنشاہ کو بھگایا‘ اُٹھا کر پھینکا وہاں سے اور اُسے امریکہ تک نے پناہ دینے سے انکار کیا۔ ایرانیوں نے دکھائی ہے ہمت اور جرأت۔ اس وقت ایک ہی ملک جو ڈٹ کر بات کر رہا ہے اسرائیل کے خلاف‘ واحد ملک مسلمانوں کا‘ ایران ہے‘‘۔
اللہ ایران کو اسرائیل کے خلاف فتح و نصرت دے اور ایرانی مجاہد قوم کو امان میں رکھے۔
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں مے کدے میں تھا (جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں