اورنگزیب خالد
منشیات کے سرِعام بیوپاری اور نشے میں مبتلا نوجوان نسل معاشرے کے لیے ناسور بن چکے ہیں، جن کی شر سے نہ معاشرہ محفوظ ہے، نہ ان کا اپنا خاندان۔ معاشرتی ہر برائی میں ملوث اس طبقے نے سب کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ مگر اس میں ان کا قصور اتنا ہے کہ وہ ایک ایسی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، جس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔
ہماری خاموشی، ہماری بے حسی، ہماری بے خبری، اور انتظامیہ کی بھتہ خوری اور جان بوجھ کر انجان بننا اس مرض کو پھیلانے اور اسے تقویت دینے میں برابر کے شریک ہیں۔
یہاں نہ کسی کا مال محفوظ ہے نہ جان۔ معاشرتی برائیوں کی جڑ منشیات، ہمارے معاشرے میں اس حد تک عام ہو چکی ہے کہ وہ چاول، دال کی طرح با آسانی دستیاب ہے۔ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ اس بات کا ادراک انتظامیہ کو بہتر انداز میں ہے، اور معاشرے کے ہر ذی شعور انسان کو بھی۔
انتظامیہ جان کر انجان کیوں بنی ہوئی ہے؟ ان کے خلاف کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جاتی؟ کیا کہیں ان کے روزگار کے بند ہونے کا خدشہ تو نہیں ہے؟
میرے اپنے شہر میں منشیات کے بہت سے اڈے چل رہے ہیں، اور وہ آزادانہ طور پر اپنے کالے دھندے کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ چوری کی مختلف اشیاء انہی اڈوں پر موجود ہوتی ہیں، جو نشے کے عادی افراد چند پیسوں اور تھوڑی سی منشیات کے عوض وہاں دے چکے ہوتے ہیں۔ چوروں اور چوری کا شور مچانے والے اپنی ایک نظرِ کرم ان اڈوں پر کیوں نہیں ڈالتے؟ وہاں نرمی کیوں برتی جاتی ہے؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر انتظامیہ پوری ایمانداری اور خلوصِ نیت سے ایکشن میں آ جائے تو منشیات کا نام و نشان ہمارے معاشرے سے مٹ سکتا ہے۔ سارے اڈے بند ہو جائیں گے، اور چھوٹی موٹی چوریاں بھی 80 فیصد تک ختم ہو جائیں گی۔
مگر یہ کام کرے گا کون؟ انتظامیہ تو بیچاری ہم سے بھی زیادہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ اور ان کی اس بے بسی کے پیچھے کون سے کارنامے کارفرما ہیں، اس کا اندازہ ہم سب کو بخوبی ہے۔
منشیات کی بیوپاری کی وجہ سے نشہ انتہائی عام ہو چکا ہے، جس سے نوجوان نسل تباہ ہو چکی ہے۔ جس بھی خاندان میں ایک نشے کا عادی فرد موجود ہوتا ہے، پوری فیملی اذیت ناک زندگی بسر کرتی ہے۔ جو نوجوان شادی شدہ ہیں، ان کے بچے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس بات کا ادراک وہی لوگ بہتر جانتے ہیں جو اس عذاب سے دوچار ہیں۔
ہماری بے حسی دیکھو کہ ہم چند پیسوں کے لیے انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج نشہ آور اشیاء ہمیں باآسانی دستیاب ہیں۔ خاص طور پر مختلف میڈیکل اسٹورز میں کوئی بھی ہائی پاور نشہ آور گولی باآسانی مل جاتی ہے۔
کیا انتظامیہ اس خاموشی کی کوئی وضاحت دے سکتی ہے؟ حالانکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہاں کہاں منشیات کے اڈے موجود ہیں۔ انتظامیہ کی ان کو کھلی چھوٹ دینا کس بات کی عکاسی کرتا ہے؟
روزِ قیامت ان غریبوں کے ہاتھ ہوں گے، اور ذمہ داران و بیوپاریوں کے گریبان۔
ہم، اہلِ علاقہ، حکومتِ وقت اور انتظامیہ سے دست بستہ اپیل کرتے ہیں کہ خدارا معاشرے کو تباہی سے نکالنے میں کردار ادا کریں۔ خدا کے لیے ہمارے ساتھ مخلصانہ رویہ اختیار کریں، اپنی ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ اس گند کو معاشرے سے ختم کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کو ہم سے بہتر علم ہے کہ کون کہاں اس کالے دھندے میں ملوث ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ اعلیٰ افسران خود عملی کردار ادا کریں۔
اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا، تو میں پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ منشیات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں دیگر جرائم بھی مکمل نہ سہی، 75 سے 80 فیصد ختم ہو جائیں گے۔