میرے ابو “میرے سیاسی ،فکری و نظریاتی استاد “

کلثوم نیاز بلوچ

سماج میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، اتنی ہی تیزی سے رشتوں کا وقار بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ پیداوار کے طریقے سے لے کر سماجی روایات تک سب کچھ بدل چکا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی تیز تھی کہ ایک نسل اور دوسری نسل کے درمیان خلا بڑھتا چلا گیا۔ پرانی نسل اور نئی نسل کے خیالات، ضروریات اور طرزِ زندگی میں واضح فرق آ چکا ہے۔ آج کے بچوں کے مزاج کو سمجھنا اور اسی کے مطابق ان کی پرورش کرنا واقعی ایک چیلنج بن چکا ہے، جس کا سامنا والدین کو مسلسل رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کارل مارکس کے والد نے جلد پہچان لیا تھا کہ ان کے بیٹے میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔ انہوں نے ان صلاحیتوں کی صحیح رہنمائی کی، جس کے نتیجے میں مارکس دنیا کے سب سے مؤثر مفکرین میں سے ایک بنے۔ اگر بچوں کو سمجھ کر، ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے تو وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان پر غیر ضروری پابندیاں عائد کر دی جائیں، یا ان کے “پر کاٹ دیے جائیں”، تو وہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔

مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے سیاسی گھرانے میں پلی بڑھی جہاں کتاب کی روشنی موجود ہے ، سیاسی نشستیں ہوتی ہیں ، اور بابا بزنجو کی فکر زندہ ہے ۔ ہمارے گھر میں بلوچستان کی سیاست اور اس کی سمت کے تعین پر بات ہوتی ہے ۔ میری ابتدائی فکری اور سیاسی تربیت گھر سے ہی شروع ہوئی۔

میرےابو ایک عرصے سے سیاست سے وابستہ ہیں۔انکا شمار نیشنل پارٹی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے مجھے بچپن سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی آشنا کیا۔ مجھ یاد ہے جب بھی کوئی سیاسی نشست ہوتی، ہم سب اس میں شریک ہوتے۔ گھر سے باہر بھی، جہاں کہیں بلوچستان کی خواتین کی سیاسی بیٹھک ہوتی، ہمیں وہاں لے جایا جاتا۔ چاہے تنظیم کاری ہو، نظریاتی بحث ہو یا سیاسی سرکل، میرے والد ہمیشہ مجھے شرکت کا مشورہ دیتے۔ یوں وہ میرے فکری اور نظریاتی رہنما بنے۔

میرے ابو روایتی والدین کی طرح نہیں ہیں۔ وہ میرے سیاسی استاد بھی ہیں اور میرا ان سے ایک بیٹی کے ساتھ ساتھ ایک سے نظریاتی رشتہ بھی ہے ۔ “ابو جان” بلاشبہ ایک خوبصورت لفظ ہے، لیکن مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ نہ صرف میرے نظریاتی اور سیاسی رہنما ہیں، بلکہ میرے فکری دوست بھی ہیں جو ہر قدم پر ہمت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ صحیح رہنمائی بھی کرتے ہیں

آج دنیا بھر میں “فادرز ڈے” منایا جا رہا ہے۔ میں آج کا دن اپنے ابو کے نام کرتے ہوئے یہ مضمون لکھ رہی ہوں۔

بچپن سے آج تک میرے والد نے میری ہر لحاظ سے رہنمائی کی۔ وہ خواتین کی تعلیم، آزادی، اور نظریاتی سیاست کے پُرجوش حامی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کی خواتین کے لیے شعور اجاگر کرنے کی جدوجہد اپنے گھر سے شروع کی۔ ہم بہنوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی، ہمیں لکھنے، بولنے اور سوچنے کی آزادی دی۔ سیاست میں آنے کا حوصلہ دیا اور میں نے نیشنل پارٹی جیسے نظریاتی پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔

آج میں جب بلوچستان اسمبلی کی رکن ہوں، تو اس میں میرے ابو کا سب سے اہم کردار ہے۔ وہ آج بھی مجھ سے کہتے ہیں، “کلثوم ، آپ بلوچستان کے مظلوم ،محکوم اور مفلوکلحال عوام کی نمائندگی کر رہی ہیں، آپ کو ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہے۔

یہ ایک مسلسل فکری اور نظریاتی سفر ہے، منزل ابھی دور ہے۔ ہماری جدوجہد بلوچستان کی ترقی خوشحالی کے لیئے ہے میری خواہش ہے کہ بلوچستان میں کی ہر بیٹی کو سوچنے، پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی آزادی حاصل ہو۔ اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ایک دن یہ خواب ضرور پورا ہوگا۔

آج کا دن ان تمام نظریاتی والدین کے نام جنہوں نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرکے معاشرے کو باشعور انسان دیے۔
میں اپنے فکری اساتذہ کی بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ میری نظریاتی پرورش کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں