محمد اظہارالحق
آپ لاکھ کہیں کہ ہم عرب ہیں‘ ہم ایرانی ہیں‘ ہم ترک ہیں‘ ہم نیشن سٹیٹ ہیں۔ مغرب نے آپ کو مسلمان ہی سمجھنا ہے۔ ترکی نے کیا نہیں کیا۔ لباس چھوڑا‘ رسم الخط کی قربانی دی‘ اسرائیل سے اس کے آج بھی سفارتی تعلقات ہیں‘ مگر اسے یورپی یونین کی رکنیت ہزار کوششوں کے باوجود نہیں ملی! اس لیے کہ مغرب کے نزدیک وہ یورپی ہے نہ ترک! وہ صرف اور صرف مسلمان ہے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے مجھے کیا‘ میں تو عرب ہوں! تو یہ سیاسی کم نظری (Myopia) ہے۔
اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔ گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹ بال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وِجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلم حکومت کا۔ 1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ گوا پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کر لیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہو گیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کر لیا۔
ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاں تک ہو سکا‘ جب بھی ہو سکا‘ علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی باہمی دشمنی عروج پر تھی۔ گوا کے بڑے پادری نے گوا کے پرتگالی حکمران کو حکم دیا کہ ایرانی بادشاہ کے پاس ایلچی بھیجے؛ چنانچہ ایلچی بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران کے شاہ عباس نے یورپی طاقتوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مدد مانگی تھی۔ ایلچیوں کو یہ پیغام دے کر ایران بھیجا گیا کہ ہاں! یورپ ترکوں سے جنگ کرے گا! ہسپانیہ کے بادشاہ نے بھی صفوی بادشاہ کو خط لکھا۔ اس خط میں ہسپانوی بادشاہ نے شاہ عباس کی تعریف کی تھی کہ اس نے ترکوں کا دماغ ”درست‘‘ کیا ہے۔ شاہ عباس اب کے غصے میں تھا۔ اس کی توقع کے مطابق ہسپانیہ نے ترکوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ہابس برگ کے جرمن شہنشاہ نے شاہ عباس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کرے گا۔ اس ”دوستی‘‘ کی وجہ سے شاہ عباس‘ جرمن شہنشاہ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس نے اپنی خوابگاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کی ہوئی تھی اور اندر جاتے وقت احتراماً اس کے سامنے سر جھکا لیتا تھا! جب پوپ نے شاہ عباس کے پاس اپنا سفیر بھیجا تو ساتھ ہی بائبل کا ایک دیدہ زیب نسخہ بھی بھیجا۔ اتفاق سے شاہ عباس نے جو صفحہ کھولا اس پر ایک تصویر تھی۔ اس تصویر میں سینٹ مائیکل نے جھکے ہوئے شیطان پر تلوار تانی ہوئی تھی۔ شاہ عباس نے پوچھا ”تلوار کس پر سونتی گئی ہے‘‘ پادری سفیر نے جواب دیا ”شیطان پر‘‘ اس پر شاہ عباس ہنسا اور کہنے لگا: میں سمجھا ”ترک پر‘‘۔ ساتھ ہی اس نے دربار میں موجود ترک سفیر کو تمسخر سے دیکھا۔ پرتگالی ایلچی لکھتا ہے کہ شاہ عباس عثمانیوں کے سفیر کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا!
پوپ کے سفیر کے ہاتھ شاہ عباس نے جوابی مکتوب بھیجا۔ اس نے یورپی بادشاہوں کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ یورپ کے نصرانی بادشاہ مل کر سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کریں۔ شام کے ساحل پر اُتریں۔ پھر حلب پر حملہ آور ہوں۔ مشرق سے شاہ عباس اناطولیہ پر حملہ کرے گا۔ یوں ترک دونوں طرف سے پھنس جائیں گے۔ ایران نے پوپ سے یہ بھی کہا کہ وہ یورپی حکومتوں پر سلطنتِ عثمانیہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے زور ڈالے۔ یہ بھی کہ ہسپانیہ قبرص پر قبضہ کر لے اور پھر حلب پر لشکر کشی کرنے کیلئے اسے مرکز کے طور پر استعمال کرے۔ کتنی سیہ بختی تھی مسلمانوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کبھی پوپ سے مدد مانگتے تھے اور کبھی ہسپانیہ اور دیگر مسیحی حکومتوں سے۔ حقیقت یہ تھی کہ مسیحی طاقتیں ایران کی خیر خواہ نہیں تھیں۔ اور ترکوں سے تو وہ جنگ کر ہی رہی تھیں۔ عبرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ شاہ عباس نے ایک سفیر بھیجا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں سرگرم کار رہا کہ ترکوں کے خلاف مدد حاصل کی جائے۔ اس کا نام زین العابدین بیگ تھا۔1609ء میں اس نے شاہ عباس کو صاف الفاظ میں لکھا کہ ”نصرانی بادشاہوں کے دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ وہ صرف یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ترک اور ایرانی آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کر دیں اور یوں مسلمانوں کا مذہب ہی مٹ جائے‘‘۔ زین العابدین بیگ کے اس خط کو چار سو سولہ سال ہو گئے ہیں۔ چار صدیاں! آپ کا کیا خیال ہے ان چار سو سالوں میں مسلمان زین العابدین بیگ کی بات سمجھ سکے ہیں؟ نہیں! افسوس صد افسوس! نہیں! آج کوئی زین العابدین موجود نہیں جو مسلمانوں کو سمجھائے۔ کل صفوی یہ سمجھ رہے تھے کہ یورپ کے بادشاہ اس کے ساتھ ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ کے دشمن ہیں۔ آج ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ‘ یورپ اور اسرائیل ایران کے دشمن ہیں اور اُن کے دوست ہیں۔ چار سو سالوں میں بھی ہم مسلمانوں میں عقل نہیں آئی۔ کل یورپ صفوی ایران کے ساتھ تھا اور عثمانی ترکوں کے خلاف تھا اس لیے کہ ترک طاقتور تھے اور مزید طاقتور ہو رہے تھے۔ آج مغرب اسی ایران کے خلاف ہے کیونکہ ایران ساری پابندیوں کے باوجود ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے۔ سبق کیا حاصل ہوتا ہے؟ صرف اور صرف یہ کہ مغرب ہر اُس مسلمان ملک کے خلاف ہے جو جنگی لحاظ سے طاقتور ہونا چاہتا ہے۔
ہم ایران کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے کھل کر ایران کی حمایت کی ہے۔ یہاں ہم ایران سے محبت بھرا شکوہ بھی کریں گے۔ انقلاب کو برآمد کرنے کا سلسلہ نہ شروع کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ آج یمن میں مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ عراق میں شیعہ اور سنی دست و گریباں ہیں۔ شام کمزور ہو چکا ہے۔ ہر سنی اور ہر شیعہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب سنیوں کے ساتھ ہے نہ شیعوں کے ساتھ! وہ صرف اور صرف مسلمانوں کے درپے ہے کہ یا تو مسلم ممالک اس کے برخوردار بن جائیں یا انہیں پامال کر دیا جائے۔ لیبیا اور عراق مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے تھے۔ ان کا تیا پانچہ کر دیا گیا۔ آج بھارت ایران کی حمایت نہیں کر رہا۔ پاکستان کر رہا ہے۔ ایران کو بھارت کی اصلیت سمجھ جانی چاہیے۔ بھارت کسی بھی مسلمان ملک کو اپنے مفاد کے لیے استعمال تو کر سکتا ہے مگر جب اس مسلمان ملک پر کوئی افتاد آن پڑے گی تو کبھی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ اب لازم ہے کہ ایران دوسرے مسلم ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ اپنی فارن پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ مسلم ممالک بھی یہ بات سمجھ لیں کہ آج اگر ایران کا ساتھ نہیں دیں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ آنکھیں کھولیں اور ذرا دور تک دیکھنے کی کو شش کریں۔ وقتی مفاد کو ترجیح دینا کوتاہ بینی ہے اور کوتاہ بینی کا حاصل نقصان ہے اور ندامت!!
( عثمانی ترکوں اور صفوی حکمرانوں کی باہمی کشمکش اور گوا کی سفارتوں کے احوال کے لیے ڈیوڈ بلو (David Blow) کی تصنیف ”شاہ عباس‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)
