اداریہ
بلوچستان کی سیاسی صورتحال ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے، جو گہرے سماجی عدم اعتماد، مسلح تنازع، اور سیاسی عمل سے محرومی کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر چکی ہے۔
بلوچستان میں ریاستی رویے اور انسانی حقوق کی پامالی عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، جبری گمشدگیوں کا تسلسل ایک ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت “انسانیت کے خلاف جرم” کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف سال 2025 میں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدگیوں کے 46 نئے کیس رجسٹر ہوئے، مجموعی طور پر 356 افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے 192 کے معاملات ابھی تک حل طلب ہیں. متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف انصاف سے محروم رکھا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا.
(بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کے تحت کسی فرد کو بغیر عدالتی نگرانی کے 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ قانون تشدد اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے امکانات کو بڑھاتا ہے.
· عدالتی ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونا: سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے محبت شاہ کیس (2013) کی ہدایات پر عمل درآمد نہ ہونا ریاستی اداروں کی جانب سے عدالتی احکامات سے انحراف کو ظاہر کرتا ہے.
ریاستی اقدامات کے خلاف عوامی سطح پر بے چینی اور احتجاج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
· مظلوم عوام کی آوازیں: بلوچستان کے عام شہری، جیسے کہ تربت کے ایک رہائشی سلیم، کا کہنا ہے کہ “بلوچستان اب ریاست کی گرفت سے نکل چکا ہے”. ایک کارکن گلزار دوست کے مطابق، “ریاست بلوچ نفسیات کو نہیں سمجھتی… وہ بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح چلانا چاہتے ہیں”.
· بلوچ یکجہتی کمیٹی کا عروج: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک مضبوط عوامی تحریک بن کر ابھری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں… یہ ریاست کا وہ حربہ ہے جو نہیں بدل رہا”. ان کی شخصیت اور جدوجہد نے صوبے کے نوجوانوں میں نمایاں مقبولیت حاصل کی ہے.
بلوچستان کا سیاسی کلچر نظریاتی بنیادوں کے بجائے شخصیات کے گرد گھومنے لگا ہے۔
تجزیہ نگار لطیف بلوچ کے مطابق، بلوچستان کی سیاست “شخصیات، وفاداریوں، خوشامد اور موقع پرستی کے گرد گھومنے” لگی ہے. سیاسی کارکن اب کسی نظریے کی بجائے کسی شخصیت سے متاثر ہو کر سیاست میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی پروگراموں اور پالیسیوں پر بحث ختم ہوتی جا رہی ہے.
· قیادت کی کمزوری: بیشتر پارلیمانی جماعتوں کے بیانات سے “گہری فکری بانجھ پن، نظریاتی انحطاط اور سیاسی تربیت کی شدید کمی” جھلکتی ہے. سیاسی مکالمہ کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے.
صوبے میں مسلح گروہوں کی کارروائیوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوابی عمل نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔
اگست 2025 میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک سلسلہ وار حملوں میں 10 فوجی اہلکاروں سمیت چار درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے. ان حملوں میں موسیٰ خیل کے واقعہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا.
حکومت بلوچستان کو عوام کے نام ایک اشتہار جاری کرنا پڑا، جس میں لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے اراکین کے ساتھ سیلفی یا ویڈیوز نہ بنائیں. سرکاری حکام کا مؤقف ہے کہ عسکریت پسند عام شہریوں کو “انسانی ڈھال” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں.
بلوچستان کے بحران کے حل کے حوالے سے دو متضاد نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔
سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل فوجی کارروائی نہیں ہے. ایک تجزیاتی مضمون میں تین آپشنز پر غور کیا گیا ہے: (1) مکمل طاقت کا استعمال، (2) سیاسی حل، یا (3) دونوں حکمت عملیوں کا استعمال. اس میں دلیل دی گئی ہے کہ محض طاقت کے استعمال سے صورتحال بگڑے گی، اور اس کا واحد حل تمام سیاسی فریقین کو شامل کرتے ہوئے ایک وسیع سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہے.
بلوچستان کا مسئلہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق قومی سلامتی اور بین الاقوامی مفادات سے ہے۔
ایک ایرانی تحقیقاتی ادارے کے مطابق، بلوچ قوم کی حیثیت اور بلوچستان کے اسٹریٹجیک مقام نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے. یہ خطہ ان طاقتوں کے لیے جاسوسی-سکیورٹی کھیلوں اور اسٹریٹجیک برتری قائم کرنے کا مرکز بن گیا ہے.
· صوبے کی سالمیت کے خدشات: جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جیسے قائدین نے بلوچستان سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے. تاہم، تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں ک بلوچستان کا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) جیسا سانحہ دہرانا، موجودہ جغرافیائی، عسکری اور آبادیاتی حالات میں ناممکن ہے.
بلوچستان کی سیاسی صورتحال ایک انتہائی گھمبیر بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کا تعلق بنیادی طور پر ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کے شدید بحران سے ہے۔ جبری گمشدگیوں جیسے اقدامات، سیاسی عمل کی نفی، اور وسائل پر عوامی اختیار کے فقدان نے اس بحران کو ہوا دی ہے۔ اس کا مستقل حل فوجی کارروائیوں میں نہیں، بلکہ ایک جامع سیاسی حکمت عملی میں پنہاں ہے، جس کا مرکز بلوچ عوام کے جائز حقوق اور مطالبات کا احترام ہو۔

