اداریہ
نواب اکبر بگٹی بلوچستان کی سیاست اور بلوچ قوم پرستی کی ایک اہم اور متنازع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کا سفر ایک وفاقی وزیر سے مسلح بغاوت کی قیادت تک، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کشیدگی اور مطالبہ خودمختاری کے پیچیدہ تناظر کو ظاہر کرتا ہے۔
نواب اکبر شہباز خان بگٹی 12 جولائی 1926ء (کچھ ذرائع کے مطابق 1927ء) کو ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد نواب محراب خان بگٹی تھے، جن کی وفات کے بعد وہ کم عمری میں ہی بگٹی قبیلے کے سردار (تومندار) بن گئے ۔ انہوں نے لاہور کے ایچی سن کالج اور کراچی گرامر اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی ۔
ان کا سیاسی سفر بھی بہت جلد شروع ہو گیا تھا۔ 1957ء سے 1958ء تک وہ ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں ریاستی وزیر دفاع رہے ۔ 1958ء میں انہوں نے ایک ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی ۔
نواب بگٹی کی سیاسی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، جس میں اعلیٰ عہدے بھی شامل تھے اور حکومت سے اختلافات کی وجہ سے جیل کی سزائیں بھی۔
گورنر بلوچستان: ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں، انہیں 15 فروری 1973ء سے 3 جنوری 1974ء تک بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا ۔ تاہم، وفاقی حکومت سے اختلافات کی بنا پر انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا ۔
فروری 1989ء سے اگست 1990ء تک وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ۔ ان کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان کے احکامات پر تحلیل کر دیا گیا ۔
انھوں نے 1990ء میں جمہوری وطن پارٹی (Jamhoori Watan Party) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی ۔ وہ 1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔
اس دوران انہیں ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور سزا سنائی گئی ۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران بگٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان تعلقات مکمل طور پر کشیدہ ہو گئے۔
2005ء میں، بگٹی نے حکومت کے سامنے صوبائی خودمختاری، وسائل پر کنٹرول اور فوجی اڈوں کے خلاف مورatorium جیسے مطالبات پر مشتمل ایک 15 نکاتی ایجنڈا پیش کیا ۔
2005ء میں سوئی گیس فیلڈ کے ہسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعے نے بگٹی اور بلوچ عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ۔ بگٹی نے مجرم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جسے حکومت نے نظر انداز کر دیا ۔ اس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہو گئے اور جولائی 2005ء میں ایک فوجی آپریشن میں متعدد بلوچ شہید ہوئے ۔
26 اگست 2006ء کو کوہلو کے پہاڑی علاقے میں ایک غار میں بگٹی پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے ۔ فوج کے مطابق، “غیر معینہ نوعیت کے دھماکے” سے غار منہدم ہو گیا ۔ جبکہ دیگر رپورٹس کے مطابق، غار کو گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں سے نشانہ بنایا گیا ۔
نواب بگٹی ایک ایسے رہنما تھے جن کے بارے میں ہمیشہ متضاد آراء پائی جاتی رہی ہیں۔
انہیں بلوچ قوم کی معاشی اور سماجی حقوق کی علمبرداری کے لیے جانا جاتا تھا ۔ وہ بلوچستان کے وسائل پر مقامی کنٹرول کے حامی تھے ۔
حکومتی حلقوں میں، ان پر اپنے قبیلے میں ترقی کو روکنے، اپنی فوج اور نجی عدالتیں چلانے کا الزام لگایا جاتا تھا ۔ جبکہ ان کے حامی انہیں بلوچ قوم پرستی کا علمبردار سمجھتے تھے ۔
انہوں نے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں سے استعفیٰ دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔
نواب اکبر بگٹی ایک کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے انسان تھے جنہیں ادب سے گہرا لگاؤ تھا اور وہ تنہائی میں کتابیں پڑھنا پسند کرتے تھے ۔ ان کی شخصیت میں بلوچ قبیلے کی روایات بھی نمایاں تھیں ۔
ان کی شہادت کو بلوچ عوام کے دلوں میں ایک شہید کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ان کی شہادت نے بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو نئی توانائی بخشی اور ان کا خاندان، خاص طور پر ان کے پوتے برہمداغ بگٹی، بلوچ حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
نواب اکبر بگٹی کی زندگی اور شہادت بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی وراثت بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔

