اداریہ
پاکستان میں 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترمیموں کے حوالے سے صورت حال کافی کشیدہ ہے۔ عدلیہ کے اندر سے ہی ان ترامیم پر سخت تنقید سامنے آئی ہے، جبکہ سیاسی میدان میں بھی ان پر سخت اختلافات موجود ہیں۔
عدلیہ کے ارکان، بشمول سپریم کورٹ کے سینئر ججوں، نے ان آئینی ترامیم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ، نے 27ویں ترمیم کے بعد اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں لکھا کہ “آئین کی روح پر حملہ ہو چکا ہے” اور یہ کہ نئے ڈھانچے “آئین کے مزار پر کھڑے ہیں” ۔ جسٹس منصور علی شاہ کا مؤقف تھا کہ اس ترمیم کے تحت “عدلیہ کو حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے” ۔
اطلاعات ہیں کہ کچھ ججوں نے 27ویں ترمیم کی وجہ سے نئے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا ہے ۔
27ویں ترمیم میں وہ کون سی شقیں ہیں جن پر عدلیہ اور حزب اختلاف نے اعتراضات اٹھائے ہیں
وفاقی آئینی عدالت کا قیام: اس نئی عدالت کے قیام کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے ۔
سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی: سپریم کورٹ کے “از خود نوٹس” (Suo Motu) کے اختیار کو ختم کر دیا گیا ہے، جسے عدلیہ کی طاقت میں کٹوتی سمجھا جا رہا ہے ۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ: اس عہدے کی نوعیت اور تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلیوں پر بھی تنقید ہوئی ہے ۔
پختونخوا تحریک انصاف نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان ترامیم پر شدید اختلاف کر رہی ہیں۔
· قومی اسمبلی میں 27ویں ترمیم کی منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (PTI) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سخت احتجاج کیا، بل کی کاپیں پھاڑ ڈالیں اور ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم “غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر لائی گئی ہے” ۔
حکومت اور اس کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ یہ ترامیم انتظامی اور عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
عدالتی نظام کی اصلاح: حکومت کا دعویٰ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے آئینی مقدمات کی جلدی سماعت ممکن ہو سکے گی، جس سے عام شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں بہتری آئے گی ۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق، ان ترامیم سے “پارلیمان نے آئین کی بالادستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے” ۔
خلاصہ یہ ہے کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیموں نے پاکستان کے عدالتی اور سیاسی ماحول میں ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کے استعفے اور دیگر ججوں کی جانب سے حلف اٹھانے سے انکار نے اس کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ان ترامیم کو عدلیہ کی آزادی سلب کرنے اور جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہیں، جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات نظام میں شفافیت اور اصلاح کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔

