رؤف کلاسرا
ایران اور اسرائیل کے مابین جاری تباہ کن جنگ سے خیال آیا کہ کم از کم پاکستان اور بھارت ان دونوں ملکوں سے زیادہ سمجھدار نکلے۔
پاکستان اور بھارت اس لیے بھی خوش قسمت ہیں کہ اگر یہ چھوٹی موٹی جنگ شروع کر بھی بیٹھیں تو فوراً پوری دنیا خصوصاً امریکہ دونوں پہلوانوں کو برابر چھڑا دیتا ہے‘ جس پر دونوں ملکوں کی قیادت اور عوام فتح کے نعرے مارتے رہتے ہیں۔ دونوں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم جیت گئے اور ساتھ ایک دوسرے کے دعووں کو جھٹلاتے بھی رہتے ہیں اور یوں خوش رہتے ہیں۔ کچھ برس ایسے ہی گزر جاتے ہیں اور پھر اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک دوسرے کو بتا کر محدود حملے کرتے ہیں لیکن پھر ان پہلوانوں کو چھڑا لیا جاتا ہے۔ تاہم ایران اور اسرائیل کے کیس میں ہمیں ایسا نظر نہیں آ رہا کہ کیسے ان دونوں میں سیز فائر کرایا جائے۔ جنہوں نے سیز فائر کرانا ہے یا کرا سکتے تھے‘ وہ سب اسرائیل کی طرف کھڑے ہیں۔ یوں ایران کو ان پر اعتماد نہیں‘ وہ ان سب کو اسرائیل کا حامی اور ان حملوں کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
امریکہ جب پاکستان اور بھارت کے مابین مصالحت کی کوشش کرتا ہے تو دونوں ملکوں کو لگتا ہے کہ وہ اس جنگ میں نیوٹرل ہے اور وہ دونوں ملکوں اور عوام کا بھلا چاہتا ہے لہٰذا امریکہ ہو یا سعودی عرب‘ ان کی بات میں وزن ہوتا ہے اور دونوں ملک انہیں سنتے اور مانتے ہیں۔ اس اپروچ کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان اور بھارت اُس بڑی تباہی سے بچ گئے ہیں جس کا شکار ایران اور اسرائیل ہو رہے ہیں۔ ایران کو اس وقت کسی بھی ملک پر اعتبار نہیں لہٰذا وہ کسی قسم کی بات سننے کو تیار نہیں۔ پھر ایران کو ایک اور مسئلہ درپیش ہے کہ اسے سیز فائر کی جو شرائط پیش کی جا رہی ہیں وہ اسے قابلِ قبول نہیں۔ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کو روکنے یا ختم کرنے کو تیار نہیں اور اس سے کم پر امریکہ‘ اسرائیل یا دیگر مغربی ممالک تیار نہیں ہوں گے‘ یوں اس جنگ کا انجام کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اب تک کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تین چار سے زائد سویلین کی ہلاکتیں ایران اور اسرائیل میں ہو چکی ہیں۔
جب ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اس وقت ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان سمجھدار ممالک ہیں جو اس حد تک نہیں جاتے کہ ایک دوسرے کے سویلین پر اتنی وحشیانہ بمباری کریں جو اس وقت ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں نظر آ رہی ہے۔ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی سے شروع ہونے والی جنگ پھیلتی چلی گئی تو پہلے اسرائیل نے حماس کی قیادت کو ختم کیا‘ پھر رخ لبنان میں حزب اللہ کی طرف ہوا اور شام میں بشار الاسد رجیم کا بھی خاتمہ ہوا۔ اب ایران اور اسرائیل‘ جو برسوں سے دور دور سے لڑ رہے تھے‘ براہِ راست جنگ لڑ رہے ہیں۔ پراکسی جنگیں غزہ‘ اسرائیل اور ایران کے لوگوں کے لیے تباہی لائی ہیں اور عام شہری ہر جگہ اس کی قیمت اپنے لہو سے ادا کر رہے ہیں۔ سویلین بے چارے اپنے کنبوں کے ساتھ سکون سے رہنا چاہتے ہیں لیکن حکمرانوں کی خواہشات اور دشمنیاں انہیں سکون سے رہنے نہیں دیتیں اور ہر جگہ ہمیں تباہی نظر آتی ہے۔ اس لیے جب میں پاکستان اور بھارت کو دیکھتا ہوں تو مجھے سکون ملتا ہے کہ ان دونوں ملکوں نے وہ رُوٹ نہیں لیا جو اس وقت اسرائیل اور ایران لیے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت جنگوں کی یہ خوبی رہی ہے کہ یہ طویل نہیں تھیں۔ تین چار دن دونوں ملک لڑے اور پھر صلح کر لی۔ اس طرح دونوں ملکوں نے عام شہریوں کو جنگ کی تباہی سے دور رکھا۔ جتنی بھی جنگیں پاکستان اور بھارت میں ہوئی ہیں ان میں عام شہریوں کی اموات بہت کم ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں کی فوجیں ہی لڑی ہیں‘ چاہے جنگ کا نتیجہ کچھ بھی نکلا ہو۔ اس لیے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے سے انتقام یا بدلہ لینے کا جنون بہت کم رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے پاس اتنا خوفناک اسلحہ ہے کہ ایک دوسرے کو چھوڑیں‘ پوری دنیا کو سات دفعہ تباہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کی جنگی سمجھداری دیکھیں کہ بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے بہاولپور‘ مریدکے اور کوٹلی پر میزائل حملوں سے پہلے پاکستان کو بتا دیا تھا تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ وہ فوجی ٹارگٹس پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے فوری طور پر بھارت کی وہ غلط فہمی اُن کے چھ طیارے گرا کر دور کر دی۔ اگر آپ کو بھارتی وزیراعظم مودی کی تقریر یاد ہو تو اس میں وہ حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ وزیراعظم مودی کی اس سادگی یا حماقت پر جہاں پوری دنیا ہنس رہی تھی وہیں بھارت کے اندر بھی ان کا مذاق اڑایا گیا کہ آپ کیسے وزیراعظم اور لیڈر ہیں کہ کسی ملک پر حملہ کرنے کے بعد اس ملک کی فوج سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو جواب نہ دے۔
اگرچہ بھارت نے سیز فائر میں امریکہ کا کردار ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ سیز فائر پاکستان اور بھارت نے خود ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے کیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ اگر سیز فائر دونوں ملکوں نے خود کیا تھا تو ہزاروں میل دور بیٹھے ٹرمپ کو خواب آیا تھا کہ انہوں نے فوراً ٹویٹ کر کے اس کا کریڈٹ لیا۔ یہاں پاکستان نے پھر سمجھداری دکھائی اور اس سیز فائر کا کریڈٹ انہوں نے صدر ٹرمپ کو دیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ بھارت کو ٹرمپ کی اس کوشش سے مسلسل انکار کر کے کیا مل رہا ہے؟ مزے کی بات ہے کہ بھارتی حکام صدر ٹرمپ کا نام لے کر انکار نہیں کر رہے۔ جب آپ اپنے عوام کو اُن کی اوقات سے زیادہ بانس پر چڑھا دیتے ہیں کہ اب اپُن ہی اس دنیا کا بھگوان ہیں‘ تو یہی ہوتا ہے۔ یہ بات پچھلے دس برس سے مودی صاحب بھارتی عوام کے ذہنوں میں مسلسل انڈیل رہے تھے کہ دنیا کو اب وہ چلائیں گے‘ پاکستان تو بہت معمولی بات ہے اب دنیا کے سارے فیصلے نیو دہلی میں ہوں گے۔ یوں اپنے عوام کو اتنا اوپر لے جا کر جب سیز فائر کیا تو بھارتی عوام کا ذہن ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ اس جنگ میں انہیں شکست ہوئی ہے اور بھارت اپنے جدید جنگی طیارے کھو بیٹھا ہے۔ ہمارے بھارتی دوستوں کی باڈی لینگویج سے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ اس جنگ میں کس کا پلڑا بھاری رہا۔ میرے اپنے چند اچھے بھارتی دوست جن سے بات چیت ہوتی رہتی ہے‘ جنگ سے پہلے اور سیز فائر کے بعد ان کے رویوں اور گفتگو میں بہت فرق ہے۔ پہلے وہ تکبر سے بھاشن دیتے تھے کہ آپ کا اور ہمارا کیا مقابلہ‘ اب چھ جہاز گرنے کے بعد وہ سب ذرا ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
بہرحال مجھے پاکستانی اور بھارتی قیادت ایران اور اسرائیل سے زیادہ میچور اور سمجھدار لگتی ہے۔ ہم‘ پاکستانی اور بھارتی عوام ایک دوسرے کو اس طرح تباہ نہیں کرنا چاہتے جیسے ایران اور اسرائیل کی برسوں سے خواہش تھی اور اب وہ اس خواہش کو پورا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو پورا پاکستان کئی دن تک افسردہ رہا جب بھارت میں مسافروں کا جہاز گرا جس میں پونے تین سو لوگ مارے گئے۔ جس طرح کے دکھ کا اظہار ہمارے ہاں کیا گیا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہم کتنے بہتر انسان ہیں کہ اُس ملک کے شہریوں کے جانی نقصان پر افسردہ ہیں جس سے چند روز پہلے ہم نے جنگ لڑی ہے۔ یہ بات آپ کو ایران اور اسرائیل میں کبھی نہیں ملے گی۔ ایران اور اسرائیل کی دشمنی 45 سال پرانی ہے جبکہ پاکستان انڈیا کی 78 برس پرانی ہے لیکن ہم نے یہ اعلانات نہیں کیے کہ اسلام آباد یا دہلی فوراً خالی کر دیں‘ تباہی آنے والی ہے۔ ہم بہتر لوگ ہیں۔
