اداریہ
بلوچستان کے موجودہ بحران کا انجام کئی پیچیدہ عوامل پر منحصر ہے۔ یہ خطہ جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، سیاسی عدم استحکام، سلامتی کے مسائل اور انسانی حقوق کے خدشات کا شکار ہے۔ مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے ان مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
بلوچستان درحقیقت ایک وسیع خطہ ہے جس کے حصے ایران، پاکستان اور افغانستان میں تقسیم ہیں۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کی تاریخ 9,000 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ اس کی اہمیت اس کے مقامی محل وقوع اور قدرتی وسائل دونوں سے آتی ہے۔
پاکستان کا بلوچستان صوبہ ملک کے کل رقبے کا 43.6% حصہ ہے اور اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں، نیز اس کی 760 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے۔
یہ خطہ گیس اور معدنیات جیسے وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے اہم منصوبوں کا مرکز ہے، جس میں گوادر کا گہرا پانی بندرگاہ بھی شامل ہے۔
بلوچستان میں موجودہ بحران کی جڑیں گہری ہیں اور اس کے بہت سے محرکات ہیں:
مقامی بلوچ آبادی کا طویل عرصے سے یہ احساس رہا ہے کہ مرکز نے خطے کے وسائل کا استحصال تو کیا ہے، لیکن ترقی اور خوشحالی میں اسے حصہ نہیں بنایا۔
بلوچستان میں کئی مسلح گروہ سرگرم ہیں، جن میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) نمایاں ہیں۔ یہ گروہ خودمختاری یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور پاکستانی فورسز کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں، خاص طور پر چینی مفادات کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی رپورٹس کے مطابق خطے میں جبری گمشدگیوں کا عمل ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بلوچستان کے عوام انصاف کے حصول سے محروم ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔
یہ خطہ کبھی کبھار ایران اور پاکستان کے درمیان کراس بارڈر فوجی جھڑپوں کا بھی مرکز بن جاتا ہے، جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں کے پار مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں
بلوچستان کے مستقبل کا انجام درج ذیل تین ممکنہ سمتوں میں سے کسی ایک پر جا سکتا ہے، یا پھر ان کا کوئی مرکب ہو سکتا ہے:
اگر ریاست جامع سیاسی مکالمے، معاشی شمولیت، اور انسانی حقوق کے تحفظ کو ترجیح دے۔ ترقیاتی وعدوں پر عمل درآمد، جیسے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 2,500 نیم تکمیل منصوبوں کو مکمل کرنا، یا پاکستانی بلوچستان میں صحت اور تعلیم کے منصوبے، اعتماد کی فضا بنا سکتے ہیں۔
اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہیں تو بحران اور گہرا ہو سکتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوامی شکایات کا سیاسی حل نہ نکالا گیا تو یہ شورش مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
موجودہ صورت حال کے برقرار رہنے کا امکان میں: یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صورتحال اسی طرح الجھی رہے—نہ مکمل جنگ اور نہ مکمل امن—جیسا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہے۔
بلوچستان کا مستقبل بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ ریاستی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں یا نہیں۔
اگر جامع سیاسی مذاکرات، انسانی حقوق کے تحفظ، اور منصفانہ معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے تو پائیدار امن اور استحکام کا راستہ کھل سکتا ہے۔
اگر سلامتی پر مبنی نقطہ نظر اور معاشی استحصال جاری رہا تو بحران کے مزید بگڑنے کا خطرہ موجود ہے۔
امید کی جا سکتی ہے کہ حکمران اس خطے کی تاریخی اہمیت اور وسیع تر علاقائی استحکام کے لیے اس کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مفاد میں دانشمندانہ فیصلے کریں گے۔

