اداریہ
پاکستان میں سیاسی، جمہوری اور انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد ایک ایسا موضوع ہے جس کے لیے جامع، پرامن اور عوامی حمایت یافتہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے آئینی و قانونی محاذ ایک بنیادی اور مؤثر ذریع طلبا یونینز کی بحالی: تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر 1984ء سے عائد پابندی کے خلاف آئینی و قانونی سطح پر جدوجہد جاری ہے۔ سندھ اسمبلی اور ملکی سینیٹ نے اس سلسلے میں قراردادیں بھی منظور کی ہیں ۔ اس پابندی کے خلاف آواز اٹھانا اور اسے عدالتوں میں چیلنج کرنا جمہوری حقوق کی بحالی کا اہم جزو ہے ۔
پاکستان کا آرٹیکل 17 شہریوں کو “ایسوسی ایشن” بنانے کا حق دیتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا سے سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا حلف نامہ اس آئینی حق کے منافی ہے ۔ ان حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی چارہ جوئی اور آگاہی پھیلانا جدوجہد کا اہم پہلو ہے۔
طلبا یکجہتی مارچ جیسی پرامن تحریکیں عوامی بیداری لانے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کا مؤثر ذریعہ ہیں ۔ پرامن احتجاج، مارچ اور عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنی آواز حکام تک پہنچائی جا سکتی ہے۔
جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں، طلبا، وکلاء، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو مشترکہ ایجنڈے پر متحد کرنا ضروری ہے ۔
عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کے بغیر محض انتخابات سے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ ووٹرز کو اپنے نمائندوں کے مؤاخذے اور شفافیت کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔
طلبا یونینز جیسی تنظیمیں قوم کو باصلاحیت اور عوامی مفاد پر یقین رکھنے والی قیادت فراہم کر سکتی ہیں، جو ڈرائنگ روم کے سیاستدانوں سے بہتر ثابت ہوتی ہے ۔ نئی نسل کو سیاسی عمل میں فعال شرکت کی ترغیب دینا چاہیے۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے عوامی حمایت اور شعور نہایت ضروری ہے۔
عوام تک براہ راست اپنی بات پہنچانے کے لیے روایتی اور سوشل میڈیا دونوں platforms کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔عوام میں ان کے بنیادی جمہوری و انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہمات چلائی جائیں، تاکہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکیں۔
جدوجہد کا طریق کار ہمیشہ پرامن اور جمہوری اقدار کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ تشدد اور دہشت گردی تبدیلی کا راستہ نہیں ہے ۔
جدوجہد کے دوران مخالفین کے خلاف نفرت اور غیظ و غضب سے پرہیز کرتے ہوئے، مکالمے، رواداری اور احترامِ رائے کو فروغ دینا چاہیے ۔
طویل مدتی کامیابی کے لیے نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
جمہوریت کو مطلقاً کفر یا اسلام کے طور پر پیش کرنے کے بجائے، ایک معتدل نقطہ نظر اپنانا چاہیے ۔ موجودہ دور کے تقاضوں کے تحت جمہوریت کو اجتماعیت برقرار رکھنے، بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کے حصول کا ایک ذریعہ تسلیم کیا جا سکتا ہے
Load/Hide Comments

