اداریہ
بلوچستان، بالخصوص پنجگور اور کیچ کے اضلاع، میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ عرصے سے نہایت تشویشناک رہی ہے۔ صوبے میں پرتشدد واقعات، ٹارگٹ کلنگز، اور مبینہ طور پر مخبری کے شبہ میں ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صورتحال کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ متعدد وارداتوں کی ذمہ داری کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی۔
صوبے میں تشدد کے واقعات میں مختلف فریق ملوث نظر آتے ہیں، جن میں علیحدگی پسند گروپ، سیکیورٹی فورسز، اور دیگر غیر معلوم عناصر شامل ہیں۔
علیحدگی پسند گروپس کی کارروائیاں: بلوچ لبریشن آرمی (BLA) جیسے گروپس نے کھلے عام اپنے کارروائیوں کا اعتراف اور انہیں جواز پیش کیا ہے۔ ایک بیان کے مطابق، BLA کے یونٹس نے پنجگور میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والے بقول انکے سات مخبروں اور معاونین کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے . ان کے ترجمان کے بیانات میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے کوئٹہ میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک اہم کارندے سید حان بگٹی کو “مرگ ئنا گواچی” (ہلاک) کرنے کا دعویٰ کیا ہے . ان کارروائیوں کے محرکات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ “بلوچ سیاسی تحریک کے خلاف متحرک” ہر شخص کے خلاف ہیں .
· سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائیاں: سیکیورٹی فورسز بھی ان حملوں کے جواب میں کارروائی کرتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 12 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا . وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “دہشت گردی کے خلاف ریاستی ادارے پوری طرح متحرک ہیں” اور “دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی بلاتفریق کارروائی کی جائے گی” .
· سیاسی و انتظامی شخصیات پر حملے: صوبے میں تشدد کا نشانہ سیاسی اور انتظامی شخصیات بھی بن رہی ہیں۔ اگست 2024 میں، ضلع مستونگ میں ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر جان بلوچ کو ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک کر دیا گیا، جبکہ ڈسٹرکٹ کونسل پنجگور کے چیئرمین سمیت دو دیگر افراد زخمی ہوئے . رکن بلوچستان اسمبلی نے اس واقعے کو “المناک سانحہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “بد قسمتی برادر کشی کرکے بلوچستان کو تباہ کیا جارہا ہے” .
تشدد کی اس فضا نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے جواب میں حکومت نے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندیاں: امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر، بلوچستان میں حکام نے یہ فیصلہ کیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو صرف دن کے اوقات میں چلایا جائے گا . یہ فیصلہ مسافروں کی حفاظت کے پیش نظر لیا گیا، جبکہ رات کے اوقات میں قافلے کی صورت میں ٹرانسپورٹ چلانے کی تجویز بھی زیر غور لائی گئی .
احتجاجی تحریکوں پر دباؤ: محنت کشوں اور سرکاری ملازمین کی تحریک چلانے والے اتحاد ‘بلوچستان گرینڈ الائنس’ پر ریاستی جبر کے بھی الزامات ہیں . رپورٹس کے مطابق، جون 2025 میں احتجاج کے دوران پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے علاوہ سینکڑوں ملازمین کو گرفتار کیا، نیز احتجاجی مقامات کو کنٹینرز سے بند کر دیا گیا .
بلوچستان، خاص طور پر پنجگور اور کیچ کے اضلاع، میں امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ صوبہ مختلف مسائل کا شکار ہے، جن میں علیحدگی پسند گروپوں کی کارروائیاں، سیکیورٹی فورسز کے جوابی اقدامات، اور سیاسی و انتظامی شخصیات پر حملے شامل ہیں۔ اس تشدد نے عام شہریوں کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندیاں عائد ہوئی ہیں۔

