ای چالان: شاندار ٹیکنالوجی، من پسند احتساب

کراچی (محمد نفیس) کراچی06/11/2025 اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ حکومت کا جدید ای چالان سسٹم ایک شاندار ٹیکنالوجی ہے جو غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ اس کا بے داغ اور غیر جانبدارانہ پن ہے۔ حال ہی میں ٹریفک کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی اپنی ہی سرکاری گاڑی کو دس ہزار روپے کا جرمانہ ہونے کی خبر نے ایک منصفانہ طریقہ چالان کی نوید سنائی۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ کیمرہ کی نہ تو آنکھ جھپکتی ہے، نہ ہی اسے خریدا جا سکتا ہے، نہ ڈرایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اثر و رسوخ سے اس کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں قانون کے لیے طاقت اور حیثیت اکثر پوشیدہ رہتی ہے، وہاں یہ مشینی غیر جانب داری کسی انقلاب سے کم نہیں۔ کیمرہ کی غیر جانبداری ایک حقیقت ہے اور وہ بدعنوان نہیں ہو سکتا اگر اس کی کارکردگی کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ لیکن خطرہ اسی پہلو میں چھپا ہے کہ ہم اس تکنیکی شفافیت کو اچھی حکمرانی نہ سمجھ بیٹھیں کیونکہ مسئلہ اس کے استعمال کا ہے۔ اس ڈیجیٹل کارکردگی کے پیچھے دراصل ایک گہری ادارہ جاتی طرفداری چھپی دکھائی دیتی جسے سمجھنا ضروری ہے۔

ای چالان سسٹم ایک ایسے وقت میں متعارف کرایا گیا جب ٹریفک حادثات میں اچانک اضافہ ہوا۔ اسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں 2024 کے دوران تقریباً 500 افراد ہلاک اور 4800 سے زائد زخمی ہوئے جن میں بڑی تعداد ہیوی وہیکلز جیسے ڈمپرز اور واٹر ٹینکرز کے ساتھ حادثے کے واقعات تھے۔ اس کا حل حکومت نے یہ نکالا کہ کیمرے لگاؤ اور جرمانے لگاؤ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظام کے نافذ کرنے سے پہلے کیا کسی نے یہ سوال اٹھایا کہ اچانک حادثات کیوں بڑھ گئے؟ ڈرائیور وہی ہیں، گاڑیاں وہی ہیں، سڑکیں بھی زیادہ تر وہی۔ تو پھر وہ کون سی تبدیلی آئی ہے جس نے اس اضافے کو جنم دیا؟

کیا پولیس نے کبھی اس تبدیلی کا تحقیقاتی جائزہ لیا تاکہ اصل عوامل کی نشاندہی ہو سکے؟ چاہے وہ سڑکوں کی ناقص ساخت ہو، قانون کے نفاذ میں کمزوری ہو، گاڑیوں کی بڑھتی تعداد، یا بغیر ضابطے کے بھاری ٹریفک کا سڑکوں پر دندناتے پھرنا ہو؟ اگر ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ فیصلہ محض اندازے اور دکھاوے کی بنیاد پر کیا گیا؟ جب پالیسی تحقیق کے بغیر بنائی جائے تو وہ حکمرانی نہیں، محض اندازوں کی بنیاد پر انتظامی بھیس ہوتا ہے۔

کاغذوں پر ای چالان ایک معقول اقدام دکھائی دیتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ ایک اچھے نظام کو اپنے مخصوص ہدف کے لئے استعمال کرنا ہے۔ یہ ٹریفک کی چند اہم وجوہات کو نشانہ بناتا ہے مثلاً بدنظمی کی علامتوں۔ تیزرفتاری، سگنل توڑنے کو تو پکڑتا ہے، مگر اصل مرض یعنی شہری انفراسٹرکچر اور ٹریفک نظم کے انہدام کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

ایک ڈرائیور کو اس لیے جرمانہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی سڑک پر تیز چلا رہا تھا جو نہایت شاندار تھی، جہاں نہ رفتار روکنے والے بریکَر موجود تھے اور نہ ہی روڈ ٹوٹی پھوٹی تھی۔ اسی طرح ایک اور ڈرائیور کو محض اس لیے چالان کر دیا جاتا ہے کہ وہ سڑک کے گڑھوں، اونچے ابھاروں یا اچانک سامنے آنے والی گدھا گاڑی یا اونٹ گاڑی سے بچنے کے لیے گاڑی موڑ لیتا ہے۔ موٹرسائیکل سوار کو بھی اسی طرح اس لیے جرمانہ کیا جاتا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے جمع پانی والے گڑھے یا کھلے گٹر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں حکومت شہریوں کو اپنی ہی غفلت کے نتائج پر سزا دے رہی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حکمرانی نہیں، خودکار الزام تراشی ہے۔

درحقیقت حکومت ایک اچھے نظام کو اس طرح استعمال کر رہی ہی جو کہتا ہے : ”ہم شفاف طریقے سے آپ کی غلطیوں پر کارروائی کریں گے۔ لیکن ہماری اپنی غلطیاں ہمیشہ پوشیدہ رہیں گی۔“

یہ ایک اچھے نظام کو غیرمنصفانہ طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ معروف سماجی کارکن اور صحافی نعیم صادق نے، جو طویل عرصے سے کراچی میں جعلی، غائب یا مخصوص نمبر پلیٹوں والی گاڑیوں کے مسئلے کو اجاگر کرتے آ رہے ہیں، ای چالان کے بعد ایک تین روزہ سروے کیا جس کا نتیجہ حیران کن تھا۔ وہ ”با اثر گاڑیاں“ بدستور کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں تھیں اور اب بھی اس شفاف کیمرے کی پہنچ سے دور تھیں کیونکہ کیمرے کو اس مقصد کے لئے پروگرام ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اگر نظام طاقتوروں کے مختلف حربوں کو نہیں دیکھ سکتا، تو اس کی غیر جانب داری صرف کمزوروں تک محدود رہتی ہے۔ اس ماڈل میں انصاف خودکار ضرور ہے، مگر یک طرفہ۔

دنیا بھر میں سڑکوں کی حفاظت تین ستونوں پر قائم ہوتی ہے :
Engineering (انجینئرنگ) ، Education (تعلیم) ، اور Emergenc…

اپنا تبصرہ بھیجیں