ہسپتالوں میں فیس پارکنگ۔۔۔مریضوں اور لواحقین کی جیبوں پر ڈاکہ

تحریر:رشید احمد نعیم
ہسپتال وہ مقام جہاں انسان اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے آتا ہے جہاں انسان اپنی سانسوں کی بحالی کے لیے، اپنے پیاروں کی زندگی بچانے کے لیے، اپنے دل کی بے چینی کو قرار دینے کے لیے آتا ہے مگر آج ہمارا معاشرہ اس قدر سنگ دل ہو چکا ہے کہ وہاں بھی انسان کے دکھوں کو کم کرنے کی بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے جس جگہ سے انسان کو امید ملنی چاہیے وہاں سے اب اسے رسید ملتی ہے ”پارکنگ فیس“ کی رسید۔ یہ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ ہسپتالوں میں آنے والا غریب جو پہلے ہی بیماری، غربت اور بے بسی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے بیمار کوچیک اپ کروانا ہے یا اس کی تیمارداری کرنی ہے اور آپ موٹرسائیکل یا گاڑی پر آئے ہیں تو پہلے فیس دو۔ یہ سوال دل میں چھری کی طرح پیوست ہوتا ہے کہ آخر یہ فیس کس بنیاد پر وصول کی جاتی ہے؟کیا وہ مریض یا ان کے لواحقین وہاں تفریح کے لیے آتے ہیں؟ کیا وہ کسی میلے یا شاپنگ مال میں داخل ہو رہے ہیں جہاں پارکنگ فیس ایک سہولت کے عوض جائز کہی جا سکتی ہے؟ نہیں وہ تو اس مقام پر آتے ہیں جہاں آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں دل میں خوف ہوتا ہے زبان پر دعائیں ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود ان سے پیسہ وصول کیا جاتا ہے جیسے ان کی بے بسی کوئی کاروبار بن چکی ہو۔ ہسپتال کے دروازے پر کھڑا پارکنگ اٹینڈنٹ کسی سرمایہ دار سے نہیں بلکہ ایک مزدور سے، ایک محنت کش سے، ایک بیٹے سے جو اپنی ماں کے علاج کے لیے آیا ہے یہ کہتا ہے”پہلے پارکنگ فیس دو“یہ کیسا المیہ ہے کہ انسان کے دکھ بھی اب ایک کمائی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں تو ویسے ہی وہ لوگ آتے ہیں جن کے پاس نجی ہسپتالوں کے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں ہوتی، ان کی جیب میں دوا کے پیسے بڑی مشکل سے ہوتے ہیں بعض اوقات تو ایک عام مزدور یا دہاڑی دار اپنی موٹر سائیکل کے لیے پٹرول کے آخری چند روپے خرچ کر کے ہسپتال پہنچتا ہے اور دروازے پر اسے بتایا جاتا ہے کہ ”بغیر فیس کے اندر پارک نہیں کر سکتے“۔ وہ بے چارہ سوچتا ہے کہ کیا اب بیماری کے ساتھ ساتھ غربت بھی جرم بن چکی ہے؟ کیا علاج کے ساتھ ساتھ غریب ہونا بھی سزا ہے؟ہسپتالوں میں پارکنگ فیس کا جواز دیا جاتا ہے کہ یہ ”انتظامات“ کے لیے ہے یا ”سیکیورٹی“ کے لیے ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ذمہ داری حکومت کی نہیں؟ کیا عوام اپنے ٹیکسوں سے پہلے ہی یہ بوجھ نہیں اٹھا رہے؟ سرکاری ہسپتال عوام کے پیسوں سے چلتے ہیں وہاں کی عمارت، وہاں کا عملہ، وہاں کی سہولیات سب عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ہیں پھر انہی عوام سے دوبارہ فیس لینا کیسی منطق ہے؟ یہ وہی بات ہوئی کہ مریض کا علاج بھی حکومت نہ کرے، دوا بھی باہر سے خود خریدنی پڑے اور اب پارکنگ بھی عوام اپنے خرچ پر کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ عمل صرف مالی زیادتی نہیں بلکہ ایک اخلاقی زوال کی علامت ہے کیونکہ جو قوم اپنے بیماروں کے دکھوں سے کمائی کرنے لگے وہ انسانیت کے بنیادی جذبے سے خالی ہو جاتی ہے۔ پارکنگ فیس کے نام پر یہ استحصال دراصل ایک سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو غریب کو ہر جگہ نچوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک عام آدمی جب اپنے بیمار والد یا بچے کو اسپتال لے کر جاتا ہے تو اس کے دل میں صرف ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا عزیز بچ جائے مگر وہ دروازے پر پہنچتے ہی ایک نئی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کہیں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہ ملے،کہیں فیس نہ دینا پڑے، کہیں کسی اہلکار سے تلخ کلامی نہ ہوجائے۔ کیا ایک انسان کو اس وقت بھی یہ اذیت سہنی چاہیے جب وہ پہلے ہی مصیبت میں گھرا ہوا ہو؟یہ المیہ صرف مالی نہیں، انسانی وقار کا بھی ہے۔ دنیا کے مہذب معاشروں میں ہسپتال کو عبادت گاہ کی طرح سمجھا جاتا ہے، جہاں انسان کے دکھوں کا احترام کیا جاتاہے۔ وہاں مریضوں کے ساتھ آنے والوں کے لیے سہولتیں پیدا کی جاتی ہیں ان کے لیے سایہ دار جگہیں، پینے کا صاف پانی اور پارکنگ کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں نظام الٹا چل رہا ہے یہاں جس کے پاس جتنے زیادہ پیسے ہوں اسے اتنی زیادہ سہولتیں ملتی ہیں اور جس کے پاس کچھ نہیں، اسے ہر موڑ پر رسوائی اورذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پارکنگ فیس کے نام پر جو چند روپے روزانہ ہزاروں گاڑیوں سے وصول کیے جاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟ کیا ان سے واقعی ہسپتال کے انتظامات بہتر ہوتے ہیں؟ یا یہ ایک اور ٹھیکہ ہے جو کسی بااثر فرد کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنا پیٹ بھر سکے؟ اگر حکومت واقعی شفافیت چاہتی ہے تو عوام کو بتایا جائے کہ ان فیسوں سے جمع ہونے والا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے کیونکہ یہ عوامی جگہ ہے عوام کا ادارہ ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والی ہر رقم عوامی امانت ہے۔یہ عمل سراسر معاشی استحصال ہے۔ غریب کی جیب سے آخری سکے تک نکال لینا، اسے ہر موڑ پر مالی دباؤ میں مبتلا رکھنا یہی اس نظام کا المیہ ہے۔ ہسپتال تو وہ جگہ ہونی چاہیے جہاں داخل ہونے سے دل کو سکون ملے مگر آج وہاں داخل ہوتے ہی انسان کا ضمیر چیخ اٹھتا ہے کہ کیا ہم واقعی زندہ معاشرہ ہیں؟ کیا ہم نے انسانیت کا احساس کھو دیا ہے؟یہ حکومت کے لیے سوچنے کا مقام ہے جو لوگ اربوں کے منصوبے بناتے ہیں کیا وہ چند پارکنگ مقامات عوام کے لیے مفت نہیں کر سکتے؟ کیا وہ چند روپے عوام پر رحم کے طور پر نہیں چھوڑ سکتے؟ اگر ہسپتالوں میں آنے والا ہر شخص کسی کاروبار کی طرح دیکھا جانے لگا تو یہ نظام کب تک انسانیت کا بوجھ اٹھا سکے گا؟ حکومت اور اشرافیہ کے ضمیر کو جاگنا ہوگا۔ یہ وقت محض انتظامی فیصلے کا نہیں، انسانی ہمدردی کے امتحان کا ہے۔پارکنگ فیس ختم کرنا شاید حکومت کے لیے ایک چھوٹا قدم ہومگر عوام کے لیے یہ ایک بڑا ریلیف ہوگا۔یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ حکومت کو اپنے غریب شہریوں کے دکھوں کا احساس ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ ہسپتال میں آنے والا شخص تفریح کے لیے نہیں، مجبوری کے باعث آتا ہے اور یہ کہ حکومت جانتی ہے کہ ہر پارکنگ فیس، ہر چھوٹی رسیدایک غریب کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ ہسپتال انسانیت کی خدمت کے مراکز ہیں ان کو کاروبار نہ بنایا جائے۔وہاں آنے والوں کو عزت، سہولت اور ہمدردی دی جائے نہ کہ رسیدیں اور دھکے کیونکہ اگر ہم نے اپنے بیماروں اور ان کے تیمارداروں کے ساتھ یہ سلوک جاری رکھا تو ایک دن ہم اپنی انسانیت کے جنازے خود پڑھیں گے۔یہ آواز عوام کی ہے ان کے دل کی پکار ہے۔ یہ تحریر محض شکایت نہیں، ایک درد کی ترجمانی ہے۔ اس درد کی جو ہر اُس ماں، ہر اُس باپ، ہر اُس بیٹے کے دل میں ہے جو ہسپتال کے دروازے پر فیس کے نام پر تذلیل سہتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ناانصافی کو فوری طور پر ختم کرے کیونکہ ریاست کا کام عوام سے پیسہ لینا نہیں بلکہ ان کے دکھ بانٹنا ہے۔اگر ہم نے انسان کے دکھوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا تو پھر ہم کس اخلاقی جواز سے خود کو ”فلاحی ریاست“کہہ سکیں گے؟ یہ وقت ہے کہ اِس ظلم، اِس زیادتی اور اِس معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ دن نہ دیکھنے پڑیں کہ ہسپتال جانے سے پہلے وہ سوچیں کہ ان کی جیب میں پارکنگ فیس کے پیسے ہیں یا نہیں۔ انسانیت کی بقا اِسی میں ہے کہ ہم کمزوروں کا سہارا بنیں نہ کہ اُن کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنا شروع کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں