مجیب الرحمٰن شامی
آئینِ پاکستان اب ستائیسویں ترمیم کی زد میں ہے‘ اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ خواہشات کی ایک لمبی فہرست سامنے آ چکی ہے لیکن حکومتی اتحاد کے اندر اختلافِ رائے نے اسے سمٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب بل سامنے آئے گا تو اسے محدود کیا جا چکا ہو گا۔ یہ بات واضح ہے کہ اس کے ذریعے افواجِ پاکستان کے کمانڈ اور کنٹرول کے نظام میں تبدیلی لانا ہے اور انصاف کے ایوانوں میں بھی بہت کچھ ایسا کرنا ہے جسے ناانصافی قرار دینے والے کم نہیں ہوں گے۔ جہاں تک وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے‘ اس میں ردوبدل البتہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے موجودہ دستور کو نافذ ہوئے 50سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا‘ اس دوران اس کی جو درگت بنی وہ سب کے سامنے ہے۔ دو بار تو یہ بذریعہ مارشل لاء معطل ہوا‘ برسوں اس پر غنودگی طاری رہی‘ جب جب بحالی ہوئی تو ترامیم کے ذریعے اس کا ناک نقشہ بدلا جا چکا تھا۔ کہنے کو تو ستائیسویں ترمیم زیر بحث ہے لیکن ایک ایک بل کا جائزہ لیں تو اس کو متعدد ترامیم کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کا یہ مطلب نہیں کہ ستائیس مقامات پر تبدیلی ہونی ہے‘ آئین کی جو دفعات ترامیم سے متاثر ہوتی رہی ہیں‘ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ایسے آرٹیکل بھی موجود ہیں جن میں بار بار تبدیلی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین کوئی جامد دستاویز نہیں ہے۔ ہر آئین میں (بدلتے حالات کے مطابق) تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی دستور ایسا نہیں جو برسوں سے جوں کا توں چلا آ رہا ہو۔ ہر دستور میں ترمیم (یا تبدیلی) کا طریقہ بھی باقاعدہ درج ہوتا ہے۔ ہمارے دستور میں بھی اس حوالے سے ایک آرٹیکل موجود ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ کی (الگ الگ) دو تہائی اکثریت ترمیم کی مجاز ہے۔ دستور بنانے والوں نے تو کئی مقامات پر یہ بھی لکھ رکھا ہے کہ ایسی کوئی ترمیم کسی عدالت میں زیر بحث نہیں لائی جا سکے گی۔ اس کے باوجود عدالتوں نے اپنے لیے راستہ نکال لیا ہے اور کسی بھی ترمیم پر غور و خوض کا حق اپنے لیے محفوظ کرا چکی ہیں۔ دستور کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے نام پر عدالت یہ جائزہ لیتی رہی ہے (اور لے سکتی ہے) کہ کہیں ترمیم کرنے والوں نے اسے متاثر تو نہیں کر دیا۔ دستور ساز اسمبلی چونکہ اسی کام کے لیے منتخب کی جاتی ہے‘ اس لیے اس کے طے کردہ بنیادی اصولوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا حق بعدازاں منتخب ہونے والی اسمبلیوں کا استحقاق نہیں سمجھا جاتا۔ وہ دستور کی اصل روح کے مطابق ہی ترمیم کا اختیار رکھتی ہیں۔ ”اصل روح‘‘ کا تعین عدلیہ اپنے پاس محفوظ سمجھتی ہے اور (کسی بھی دور کی) حزبِ اختلاف اس حوالے سے اسے ہلا شیری دیتی چلی جاتی ہے۔ وکلا تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے ادارے بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہتے۔ پاکستان میں بھی اعلیٰ عدالتوں نے دستور کے ساتھ حسبِ توفیق بے تکلفی فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ مارشل لاء کو جواز عطا کرتے ہوئے اسے دستور میں ترمیم کا حق بھی (کمال فیاضی سے) عنایت فرمائے رکھا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی ملٹری کونسل بھی اس اختیار سے مالا مال ہوئی اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء نے بھی اس کا لطف اٹھایا۔ یہ اور بات کہ بعدازاں ان ترمیمات کو توثیق کے لیے نومنتخب پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا پڑا‘ انہوں نے جس پر مہر توثیق ثبت کر دی‘ اسی کو کتابِ آئین میں مستقل جگہ مل پائی۔
پاکستانی جمہوریت اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات ہموار نہیں رہے۔ 1973ء کا دستور اگرچہ وسیع تر اتفاقِ رائے کے ذریعے تشکیل پایا تھا تاہم اس کے تحت قائم ہونے والی پہلی (بھٹو) حکومت ہی نے اپوزیشن کا ناطقہ جس طرح بند کیا کہ اس کی مثال ڈھونڈنی آسان نہیں ہے۔ اس دستور کے تحت پہلے انتخابات کا انعقاد ہوا تو اس میں منظم دھاندلی کا ایسا منصوبہ بنایا گیا جس نے ضبط کے بند توڑ ڈالے۔ اپوزیشن نے ”علمِ بغاوت‘‘ بلند کر دیا‘ تصادم اس قدر شدید ہوا کہ مارشل لاء کو قدم رنجہ فرمانا پڑ گیا۔ اس نے فریقین کو ایک دوسرے سے بچایا لیکن خود دبوچ لیا۔ آٹھ سال بلاشرکتِ غیرے حکومت کر کے غیر جماعتی انتخابات کی بساط بچھائی۔ آئین بحال ہوا تو چند برس بعد پھر اہلِ سیاست کے درمیان ٹھن گئی اور چیف آف آرمی سٹاف نے حکومت سے بالا ہی بالا جنگی کارروائیاں شروع کر دیں تو لینے کے دینے پڑ گئے۔ چیف آف آرمی سٹاف کو ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا لیکن انہوں نے آگے بڑھ کر وزیراعظم سے یہی سلوک کر ڈالا۔ اپوزیشن ان کی مدد کو آ گئی‘ سپریم کورٹ کے ججوں کو نکال باہر کیا گیا‘ نئی سپریم کورٹ تشکیل دے کر اپنے حق میں ”فتویٰ‘‘ جاری کرا لیا گیا۔
پاکستانی جمہوریت کی بنیادی کمزوری یہ رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے دائرے میں کام نہیں کیا۔ حکومت کرنے والوں نے اپوزیشن کا جینا حرام کیے رکھا تو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والوں نے حکومت گرانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے اور ایک دوسرے کو تسلیم کر کے دستور کے تحت کردار ادا کرتے تو تاریخ مختلف ہوتی۔ آج بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقاتِ کار نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر عمران خان جیل میں ہیں‘ متعدد مقدمات ان کا پیچھا کر رہے ہیں‘ ان کی جماعت خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار ہے جبکہ سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت اس کے پاس ہے‘ لیکن محاذ آرائی زوروں پر ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ دستور کے تحت معاملات کو چلانے کے بجائے سڑکوں کی سیاست کو جزو ایمان بنا لیا گیا ہے‘ اور تو اور اپوزیشن احتجاجی سیاست کے دوران فوجی اداروں کو بھی نشانہ بنا گزری۔ فوجی تنصیبات پر حملے کرکے پاکستانی سیاست کو اس طرح گدلا کیا گیا کہ الامان الحفیظ۔ ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ”خانہ جنگی‘‘ جاری ہے تو دوسری طرف اقتدار کی زیریں سطح تک منتقلی پر آمادگی ظاہر نہیں کی جا رہی۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں مقامی حکومتیں موجود نہیں ہیں۔ بااختیار بلدیاتی ادارے قائم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اقتدار میں شرکت کا احساس نہیں ہو پاتا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے چند سو اراکین اپنے انتخاب کو جمہوریت کی معراج سمجھے بیٹھے ہیں۔ زیریں سطح پر عوام کو اپنے معاملات آپ طے کرنے کا حق دینے پر تیار نہیں ہیں۔
ستائیسویں ترمیم منظور ہو جائے‘ اس کے بعد اٹھائیسویں‘ انتیسویں اور تیسویں کی باری بھی آ جائے‘ جب تک پاکستان کے اہلِ سیاست ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گے‘ انتخابی عمل کو خوب سے خوب تر کی تلاش کا نام نہیں دیں گے‘ آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کو یقینی نہیں بنائیں گے‘ جیتنے اور ہارنے والے اپنی اپنی حدود میں نہیں رہیں گے‘ قومی اور صوبائی کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتیں بھی آئینی تحفظ کے ساتھ قائم نہیں ہوں گی‘ پاکستانی سیاست کو چین نصیب نہیں ہو گا۔ دل کے درد کا علاج سر پر بام لگا کر نہیں کیا جا سکتا۔ آئین میں ترمیم کے ساتھ ساتھ اہلِ سیاست اپنے آپ میں‘ اپنے رویوں میں ترمیم کریں۔ اس ترمیم کے بغیر کوئی بھی ترمیم ہمارے درد کا مداوا نہیں کر سکے گی۔
Load/Hide Comments

