دریا بادشاہ اور درباری

رسول بخش رئیس
گرمیوں کے موسم میں درجہ بڑھتے ہی دریائوں کا بادشاہ‘ دریائے سندھ جوش میں آ جاتا ہے‘ بالکل ایسے ہی جیسے آپ تیز آگ پرکھولتے پانی کو جوش مارتا دیکھتے ہیں۔ یہ پانی میلوں تک پھیل کر ایک چھوٹے سمندر میں بدل جاتا ہے۔ کنارے پر کھڑے ہوں تو دوسرا کنارا شاید آپ دوربین کی مدد سے ہی دیکھ سکیں۔ وہ بھی زمانہ تھا کہ گرمیوں میں لہروں کی طغیانی میں بادبانی کشتیوں میں نہ جانے کتنی بار دریا بادشاہ کے دوسرے کنارے پر پہنچا۔ ابھرتی گرتی لہروں پر لکڑی سے بنی دیسی کشتی ہچکولے کھاتی اوپر نیچے‘ زیر وزبر ہوتی تو ہمارا کمزور دل دہل جاتا۔ آپ نے سکرینوں پر اس مرتبہ سیلابوں کے کچھ اذیتناک مناظر تو دیکھے ہوں گے مگر ہم نے اس موسم میں دریا کو پار کرنے کا جو تجربہ اور مشاہدہ پرانی یادوں کی طرح ابھی تک دل میں سنبھال رکھا ہے‘ وہ شاید میری عمر کے کچھ لوگوں کو اور دریا کے قرب وجوار میں بسنے والے لوگوں کو ہی نصیب ہو۔ ہمارے علاقے میں دریائے سندھ وہ دریا نہیں جو آپ نے کہیں اور دیکھا ہوگا۔ تقریباً تیس چالیس میل شمال میں ملک کے زندہ بہتے بھارت کے حوالے کیے گئے خشک دریا ایک جگہ مل کر اس میں گرتے ہیں۔ برسات کے موسم میں سب دریائوں میں پانی کی روانی شروع ہو جاتی ہے اور ایک ہی دریا یہ سارے پانی اپنے سینے سے لگا کر اپنی چھاتی کئی میل چوری کر لیتا ہے۔ اس کا سینہ اتنا چوڑا ہو جاتا ہے کہ دیو مالائی قصوں کا پہاڑ کی صورت بھوت آنکھوں کے سامنے نمودار ہو جاتا ہے۔
بچپن میں جب آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو دریا سے صرف چند میل دور پایا۔ طغیانی کی پہلی زیارت ہوئی پانچ سال کی عمر میں کہ وہ سکول کا پہلا دن تھا‘ ایک چھوٹا سا قدیم قصبہ جہاں ہر طرف مجھے کھجوروں کے درخت نظر آئے‘ اب دریا کی موجوں کی زد میں تھے۔ وہاں نصف صدی سے زیادہ دیر سے قائم پرائمری سکول بھی نہ دیکھ سکے‘ کہ چند روز پہلے دریا برد ہو چکا تھا۔ کہیں قریب ہی ایک جھونپڑی میں عارضی سکول قائم تھا مگر سب کی نظریں دریا اور اس کی اڑتی ہوئی موجوں اور ان سے گرتی زمین کے کناروں پر مرکوز تھیں۔ اگلے دو روز میں پورا بھاگسر قصبہ دریا کے اندر چلا گیا۔ لوگ آج بھی اندازے لگاتے ہیں کہ وہ پرانا بھاگسر کس مقام پر تھا۔
ہم دریا کے قریب رہنے والے اسے دریا ہی کہتے تھے۔ یہ تو بعد میں سکول کی کتابوں میں پڑھا کہ اس کا ایک نام بھی ہے۔ آج بھی ہم کہتے ہیں کہ دریا پر جا رہا ہوں‘ نام کوئی بھی نہیں لیتا۔ اس میں اپنائیت اور اپنا پن زیادہ ہے۔ پرانے زمانوں کے لوگ دریا کو اس کی عظمت‘ طاقت اور پانیوں کی وسعت کے حوالے سے دریا بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا مزاج بھی بادشاہوں سے ملتا جلتا ہے۔ جو من میں آئے‘ کر گزرتا ہے۔ موج اور جوش میں ہو تو کسی کی پروا نہیں کرتا۔ جس طرف چاہے اپنی فوجیں اور گھوڑے دوڑانا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں دریا بادشاہ کی مملکت بہت وسیع ہے جو کچے کے نام سے مشہور ہے‘ اور آپ اس سے ڈاکوئوں کی کارروائیوں کی خبروں کی وجہ سے واقف ہیں۔ ہم ان زمینوں کو کچے میں شمارکرتے ہیں جو دریا کے دونوں طرف‘ پندرہ بیس میل کے عرض میں ہیں اور کہیں اس سے زیادہ بھی ہیں۔ یہاں تقریباً ہر سال سیلاب آتا ہے۔ اگر چہ سب زمینوں پر پانی نہیں آتا مگر سالہا سال سے نرم اور سیلابی مٹی کی تہہ پڑنے سے یہ نہایت زرخیز ہو چکی ہیں۔
گزشتہ تیس چالیس سالوں سے زرعی ٹیکنالوجی میں ترقی‘ سولر ٹیوب ویلوں‘ بڑے ٹریکٹروں اور دیگر وسائل نے کچے میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جونہی دریا کا سیلابی پانی اترتا ہے‘ زمینیں ذرا خشک ہوتی ہیں تو ربیع کی فصلوں کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ اس سال بڑے سیلاب کے باوجودہمارے علاقے کے کچے میں چاول‘ گنا اور کہیں کہیں کپاس کی فصل محفوظ رہی ہے۔ دریائی کنارے قدیمی آباد رہے ہیں‘ جب نہری نظام انگریزی دور کا جدید نہیں ہوا تھا‘ تب بھی لوگ دریا سے چھوٹی نہریں نکال کر زمینوں کو محدود پیمانے پر آباد کرتے تھے۔ اب تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔
دو ہفتے قبل کچھ دن اپنے آبائی وطن میں آنا ہوا تو سوچا کہ دریا بادشاہ کی خدمت میں حاضری دیے بغیر اگلے دورے تک دل میں خلش نوکِ خار بن کر چبھتی رہے گی۔ کئی برسوں سے ہماری دریا بادشاہ کے دربار میں جانے کی وجہ اپنی زمین کا ٹکرا بھی ہے جو پندرہ سال قبل اس کی محبت میں غیر آباد صورت میں خرید کیا تھا۔ تب دریا کچھ فاصلے پر تھا۔ شاید ایک کلومیٹر دور۔ زمین پر قدم رکھتے ہی اس کے کنارے کی طرف چل پڑتا۔ ساتھ ساتھ گنے کے کھیت‘ سرسوں اور گندم کی زمین سے نکلتی ہوئی کونپلوں کا نظارہ کرتے آخرکار دریا کے ٹھنڈے پانی کو ہاتھ سے محسوس کرکے کچھ دیر ریت پر کھڑے اس کے مشرق کی طرف آخری حد تک نظر دوڑانے کی کوشش کرنا اپنا معمول رہا ہے۔ گزشتہ سالوں تک دریا کے مزاج میں اس موسم میں نرمی تھی‘ موجیں خموش‘ روانی میں دھیرج اور فضا میں گہری چپ تھی‘ جو گاہے گاہے اس وقت ٹوٹتی جب اندھی ڈولفن سانس لینے کی غرض سے پانی سے اچھلتی اور چھپاکے سے گرتی۔ جی چاہتا کہ کاش وقت کا دھارا تھم جائے اور دریا کے کنارے جاڑوں کی صبحوں‘ دل گداز سنہری دھوپ کے ارغوانی رنگوں اور شام کو نارنجی پانیوں کا نظارہ کرتا رہوں۔ وہاں اس زمین کے غیر آباد ٹکرے کی ملکیت کا مقصد یہی تھا کہ بچپن سے قائم دریا کے ساتھ تعلق عمر کے آخری سانسوں تک برقرار رہے۔ کبھی تو دل میں خیال آتا کہ زندگی تو لاہور‘ اسلام آباد اور دنیا کے دیگر شہروں میں بسر کر ڈالی اور دریا کے قریب آباد رہنے کی خواہش صرف دل ہی میں پلتی رہی۔ اب پائوں میں کئی زنجیریں پڑ چکی ہیں۔ تھے تو کہیں اور کے‘ قسمت نے کہیں اور باندھ دیا۔ یہ بھی غنیمت سے کم نہیں کہ دل میں تڑپ اور پائوں میں سکت تو ہے کہ جب ارادہ باندھا‘ دریا بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
اس دفعہ تقریباً ایک سال بعد جانا ہوا تو جو دیکھا‘ اس پر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ دریا اب کم وبیش تمام زمینوں کو‘ جو اپنے ٹکڑے اور اس کے کنارے کے درمیان تھیں‘ اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اب ہمارے درمیان سب دوریاں ختم ہو چکی تھیں‘ ایک انچ کا بھی فاصلہ نہیں رہا تھا۔ سوچتا ہوں کہ شاید دریا بادشاہ نے میری عمر بھر کی محبت کا جواب اس محبت سے دیا ہے کہ میری زمین کو اپنا کنارا بنا لیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ طاقتوروں‘ خصوصاً بادشاہوں سے زیادہ قربت اور یارانہ اچھا نہیں‘ نجانے کب ان کا مزاج بدل جائے۔ کچھ دیر اس نئے کنارے پر کھڑا سوچوں میں گم رہا کہ اگلی مرتبہ حاضری دی تو نہ جانے یہ کہاں پر موجیں مار رہا ہو گا۔ اس کے کٹائو میں کچھ کمی تو دیکھی ہے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ دریا بادشاہ اپنا کنارا اس علاقے میں بنانے میں نہ کسی کی خواہش کا محتاج ہے‘ اور نہ کسی کے بڑے بڑے بند اس کے مانع آتے ہیں۔ اس کی یہ آزاد روش ہمیں ہمیشہ عزیز رہی ہے کہ اس میں آزادی‘ روانی اپنی سمت خود بنانے اور فطری طاقتوں کے اٹل ہونے کا سبق بھی ہے۔ اب دریا بادشاہ اور یہ درویش ہمیشہ کے لیے قریبی ہمسائے بن چکے ہیں۔ باقی ماندہ ٹکرے کے ساتھ یہ جو بھی سلوک کرے‘ ہمارے جیسے اس کے عاشق صدقِ دل سے قبول کرتے ہیں۔ دل میں ایک عجیب سی مسرت کی خوشبو بسی ہے کہ اب دریا بادشاہ اور ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہا۔ امیر خسرو کا یہ شعرتب سے ذہن میں گونج رہا ہے:
من تو شدم تو من شدی‘ من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

اپنا تبصرہ بھیجیں