نواب نوروز خان: بلوچستان کا عظیم مجاہد اور بابائے قوم

اداریہ

بلوچستان کی سرزمین نے تاریخ کے ہر دور میں آزادی و خودمختاری کے متوالے بہادروں اور مجاہدوں کو جنم دیا ہے۔ انہی میں سے ایک نام نواب نوروز خان زرکزہی کا ہے، جنہوں نے نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنی اولاد کو بھی حق و انصاف کی خاطر قربان کر دیا۔ ان کی قربانیاں بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

نواب نوروز خان کی جدوجہد کو سمجھنے کے لیے 1958 کے سیاسی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ یکم اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا نے یکطرفہ طور پر بلوچ ریاستوں کے خصوصی درجے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ “ون یونٹ اسکیم” کا حصہ تھا، جس کے تحت پاکستان کے تمام صوبوں کو ایک اکائی میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے بلوچوں کی سیاسی نمائندگی اور ثقافتی شناخت کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی، قلات کے نواب احمد یار خان کو گرفتار کر لیا گیا، جس نے مزاحمت کی آگ کو ہوا دی۔

نواب نوروز خان، جو زرکزہی قبیلے کے سربرآوردہ رہنما تھے، نے اس فیصلے کو بلوچ قوم کے خلاف اعلان جنگ سمجھا۔ انہوں نے حکومتی فیصلوں کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

نواب نوروز خان نے تقریباً ایک ہزار کے قریب مسلح بلوچ جنگجوؤں کو متحرک کیا۔ انہوں نے حکومتی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا اور کوہ سلیمان میں پناہ لی۔ یہ تحریک جو 1958 سے 1959 تک جاری رہی، درحقیقت بلوچستان میں دوسری بڑی مسلح بغاوت تھی۔ نواب نے اپنی اس جدوجہد کو “حتمی جنگ” کا نام دیا۔

حکومت نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے لیفٹیننٹ کرنل ٹکا خان کی کمان میں فوجی دستے بھیجے، جنہیں فضائیہ کی بھی حمایت حاصل تھی. پہاڑی علاقوں میں فوج اور مجاہدین کے درمیان جاری جنگ نے حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا۔

حکومتی وفد نے نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ پہاڑوں سے نیچے اتریں گے تو ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔ ان یقین دہانیوں کے لیے وفد نے قرآن مجید کو اپنی ضمانت بنایا. قرآن پر بھروسہ کرتے ہوئے، نواب نوروز خان اور ان کے ساتھی 1960 کے آغاز میں میدان جنگ سے نیچے اتر آئے. لیکن بدقسمتی سے، جیسے ہی وہ نیچے اترے، انہیں دھوکے سے گرفتار کر لیا گیا. انہیں اور ان کے 160 ساتھیوں کو جیل میں لے جایا گیا، جہاں ان پر بغاوت اور فوجی اہلکاروں کے قتل کے الزامات میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا.

فوجی عدالت نے نواب نوروز خان کو ان کی عمر کے پیش نظر عمر قید کی سزا سنائی، جبکہ ان کے تین بیٹوں (میر محمد عالم خان، میر محمد اکبر خان، میر محمد کامران خان) اور چار دیگر قریبی رشتہ داروں (جن میں بھتیجے بھی شامل تھے) کو سکھر اور حیدرآباد کی جیلوں میں پھانسی کی سزا سنائی گئی.

یہ 15 جولائی 1960 کا دن تھا جب ان سات جوانوں کو پھانسی دے دی گئی. نواب نوروز خان کو کوہلو جیل میں قید رکھا گیا، جہاں 25 دسمبر 1965 کو وہ قید کے دوران ہی انتقال کر گئے. ان کی لاش کو بھی ان کے چہیتے بیٹوں کی لاشوں کے ساتھ قلات پہنچا کر دفنایا گیا.

نواب نوروز خان کی قربانی بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔

ان کی عظیم قربانی کی وجہ سے انہیں بلوچ حلقوں میں “بابائے بلوچستان” کا اعزاز دیا جاتا ہے.
ان کی قربانیاں بعد میں آنے والی بلوچ سیاسی اور مسلح تحریکوں کے لیے ایک محرک کا کام کرتی رہی ہیں.
ان کی جدوجہد اور قربانی بلوچ قومی شنافت کی تشکیل کا ایک اہم سنگ میل ہے.

نواب نوروز خان کی قربانی محض ایک خاندان کی داستانِ الم نہیں، بلکہ یہ اس عظیم قوم کی اجتماعی جدوجہد کی علامت ہے جس نے ہر دور میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ آج بلوچستان میں جو تحریک چل رہی ہے، اس کی جڑیں نواب نوروز خان اور ان جیسے دوسرے عظیم مجاہدوں کے خون سے سینچی گئی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا اور ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہی اس عظیم مجاہد کے لیے حقیقی خراج تحسین ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں